Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

گلوبل سکیورٹی انیشئیٹو کی کامیابی کے بعد چین کا گلوبل سولائزیشن انیشئیٹو ،امن ، جدت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کا نیا تصور

بیجنگ میں کامیاب مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ طے پانا مشرق وسطی کی صورتحال پر چین کی گہری نظر اور سمجھ بوجھ کا ایک واضح ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ امن کی جیت اور چین کے " گلوبل سکیورٹی انیشئیٹو " کی کامیابی کا بین ثبوت ہے ۔

سارہ افضل

تحریر: سارہ افضل

 

گلوبل سکیورٹی انیشئیٹو کی کامیابی کے  بعد  چین کا گلوبل سولائزیشن انیشئیٹو ،امن ، جدت اور ہم آہنگی کو  فروغ دینے کا نیا تصور

 

  تنازعات ، جنگوں اور مصائب میں گھری دنیا کو اس وقت ایک اچھی خبر سننے کو ملی ، جب دس مارچ کو بیجنگ میں چین، سعودی عرب اور ایران نے سہ فریقی مشترکہ بیان کے ذریعے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا  ۔یہ بلاشبہ مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کے لیے  ایک بہت بڑی پیش رفت  اور  ایک تاریخی سنگ میل ہےجس میں  چین کے ثالثی کردار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

سعودی عرب اور ایران کو "مشرق وسطی کے پرانے دشمن” کہا جاتا ہے یہ دونوں ممالک سنی اور شیعہ مسلک کےنمائندے ہیں اور طویل عرصے سے شام کے بحران، لبنان کی صورتحال اور یمن کی خانہ جنگی پر ایک دوسرے کے حریف ہیں۔  گزشتہ سات سالوں میں بہت سے ممالک نے ان کے درمیان ثالثی کی کوشش کی ، لیکن  کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ ایسے میں چین کی ثالثی کو قبول کرنا اور بیجنگ میں کامیاب مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ طے پانا  مشرق وسطی کی صورتحال پر چین کی  گہری نظر اور  سمجھ بوجھ کا ایک واضح ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ امن کی جیت اور چین کے ” گلوبل سکیورٹی انیشئیٹو ” کی کامیابی کا بین ثبوت ہے ۔

یہ انیشئیٹو چینی صدر نے اپریل ۲۰۲۲ میں دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔  چین کا ہر فورم پر اٹل  موقف رہا ہے کہ صرف پر امن مذاکرات ہی مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور کسی بھی ملک کی قسمت کا فیصلہ اس کے اپنے عوام کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کا یہ معاہدہ گلوبل سکیورٹی انیشئیٹوکے تصور کا علمبردار ہے،ا س نے دنیا کو زمینی حقائق  کی روشنی میں یہ بتایا ہے کہ  طاقت مسائل کو حل نہیں کر سکتی ، بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔

 

چین ،چیلنچز کے سامنے سر نہیں جھکاتا یہ بھی پڑھیے

 

حالیہ دنوں سی پی سی اور عالمی سیاسی جماعتوں کے ساتھ "جدیدیت کی راہ : سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری” کے موضوع پر ہونے مکالمے  میں چینی صدر

شی جن پھنگ  نے  دنیا بھر کے عوام کے مفاد کا ایک اور تصور گلوبل سولائزیشن انیشئیٹو  کی صورت میں پیش کیا اور عالمی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اپنی ترقی کو اپنی قومی جدیدیت کی کوششوں کے ساتھ مربوط کریں ۔

گزشتہ سال ستمبر میں گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو اور گزشتہ سال اپریل میں گلوبل سیکیورٹی انیشئیٹو کے بعد  یہ چین کی جانب سے مفادِ عامہ کی ایک اور قابلِ قدر تجویز ہے۔اس اقدام کے تحت انہوں نے تہذیبی تنوع کا اور  انسانیت کی مشترکہ اقدار کاا حترام کرنے ، تہذیبی ورثے اور جدت طرازی کی قدر کرنے اور مشترکہ طور پر مضبوط بین الاقوامی عوامی تبادلوں اور تعاون کی حمایت کرنے پر زور دیا۔

تہذیبی تنوع کے حوالے سے  ان کا کہنا تھا کہ تمام ممالک کو تہذیبوں کے درمیان مساوات، باہمی سیکھ، مکالمے اور شمولیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ، ثقافتی تبادلوں کو اختلافات سے بالاتر ہونے کر دیکھنے کی ضرورت ہے، باہمی سیکھ کو تنازعات سے بالاتر ہونا چاہیے اور بقائے باہمی کو برتری کے احساسات سے بالاتر  رکھنا چاہیے۔ مختلف تہذیبی اقدارو تصورات کو سمجھنے کےلیے وسیع النظری اور وسیع القلبی   کو اپنانا چاہیے  اور اپنی اقدار یا اپنا تہذیبی نمونہ  دوسروں پر مسلط کرنے اور نظریاتی محاذ آرائی کو ہوا دینے سے گریز کرنا چاہئے۔

آج جب  دنیا متعدد چیلنجز اور بحرانوں میں گھری ہوئی ہےاور  جدیدیت کا عمل ایک بار پھر تاریخ کے دوراہے پر  پہنچ چکا ہے تو اس مرحلے پر  یہ سوال بے حد اہم ہے کہ "ہمیں کس قسم کی جدیدیت کی ضرورت ہے اور ہم اسے کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟”۔”جدیدیت کی راہ پر کامیابی سے گامزن ہونے کے لیے کسی بھی ملک کو نہ صرف اس عمل کو چلانے والے قوانین کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسے  اپنے قومی حالات اور منفرد خصوصیات کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔

جدیدیت چند مخصوص ممالک کا "خصوصی پیٹنٹ” نہیں ہے ،جسے "کاپی پیسٹ” کر لیا جائے ۔ یہ طرزِ فکر اور طرزِ زندگی ہے. چینی صدر نے بالکل درست کہا کہ جدیدیت  پر مبنی خوشحالی اور ترقی ، درخت پر پکے پھل کی طرح جھولی میں نہیں آ گرتی  اس کے لیے خود کو مضبوط بنا کر ثابت قدمی کے ساتھ پہل کرنی پڑتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کڑی محنت کا تسلسل ہی اس کے حصول کو ممکن بناتا ہے۔

ہر ملک کی حکومت اور اس کی دیگر  سیاسی جماعتوں کو اپنی ترقی کا مرکز و محور عوام کو بنانا چاہیے۔ اس حوالے سے چینی جدیدیت دنیا ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک مثال ہے اس کی جڑیں چین کے قومی حالات  اور لوگوں کی دلی خواہشات  سے منسلک  ہیں ۔چینی  جدیدیت  دوسرے ممالک کے تجربات سے سیکھتی ہے یہ جدید عناصر پر بھی مشتمل ہے مگر اس پر اپنی  تاریخ اور روایتی ثقافت کی چھاپ برقرار ہے  ۔ چین کی جدیدیت کا راستہ پرامن ترقی کی راہ  پرگامزن ہے۔

چین کو جدید بنانے کے لیے  چین نہ تو نوآبادیات اور لوٹ مار کے پرانے راستے پر چلا اور نہ ہی کچھ ممالک کی جانب سے طاقت حاصل کرنے کے بعد بالادستی کے حصول کی خاطر  غلط راستے پر چلا ہے نہ ہی چلے گا  ۔ اسی لیے چین کی جانب سے جو بھی انیشئیٹو پیش کیا جاتا ہے اسے عالمی سطح پر سنجیدگی سے لایا جاتا ہے  اور چین کے کردار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے ، جس کا حالیہ ثبوت ایران -سعودی عرب معاہدہ ہے اور یہ اشارہ ہے کہ روس یوکرین کے معاملے پر بھی ” حل” مذاکرات کی میز پر بات چیت کے ذریعے نکالنا ممکن ہے اور یہی دنیا  کے پرامن مستقبل کے لیے  بہترین راستہ بھی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More