Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

بین الاقوامی تجارت پر سیاست کے بڑھتے سائے

دراصل امریکہ سکیورٹی کو بہانہ بنا کر برطانیہ اور دیگر ممالک کو ہواوے پر پابندیاں عائد کرنے پر اگسا رہا ہے۔

تحریر: شاکراللہ مہمند

امریکہ اور چین کے درمیان محاذ آرائی کے نتیجے میں کئی ممالک امریکی صف میں کھڑ ا ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات پر سیاست کے سائے دراز ہوتے جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ اثرمعیشت اور تجارت پر پڑ رہا ہے ۔ اس سیاست کی تازہ شکار چین کی بڑی مواصلاتی کمپنی ہواوے بن گئی ہے ۔

برطانیہ نے 14 جولائی کواپنے یو ٹرن فیصلے میں اعلان کیا کہ برطانیہ اس سال کے آخر تک چین کی بڑی مواصلاتی کمپنی ہواوے سے فائیوجی مصنوعات کی خریداری بند کردے گا ، اور 2027 تک ہواوے کی تمام فائیو جی تنصیبات کا استعمال ترک کردے گا۔ برطانوی حکومت کے اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ میں فائیوجی نیٹ ورک کی تعمیر میں ہواوے کی شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ برطانیہ میں ہواوے کے ترجمان ایڈورڈ بریوسٹر نے اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیا ہے اس فیصلے سے برطانیہ میں ہوواوے کے مستقبل کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ سیکورٹی کی بنیاد پر نہیں بلکہ امریکہ کی تجارتی پالیسی کی وجہ سے لیا گیا ہے۔ کیونکہ امریکی صدر نے وائٹ ہاس میں پریس کانفرنس میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے کئی ممالک کو ہوا وے کے ساتھ کاروبار نہ کرنے پر آمادہ کیاہے اور ان ممالک پر واضح کیاہے کہ اگروہ امریکہ کے ساتھ کاروبار چاہتے ہیں تو ہوا وے کا استعمال بند کردے ۔

یاد رہے اسی سال جنوری میں برطانیہ نے ہواوے کو فائیو جی نیٹ ورک کی تعمیر میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی اس کے علاوہ برطانوی نیشنل سائبر سیکیورٹی سینٹر نے بھی واضح کیا تھا کہ ہواوے کی فائیو جی تنصیبات سے کسی بھی قسم کا خطرہ قابل کنٹرول ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانوی مواصلاتی انٹلیجنس ایجنسی بھی یہ کہہ چکی ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چینی حکومت ہواوے کے ذریعہ سائبر جاسوسی کرتی ہے۔ ان حقائق سے ظاہر ہوتاہے کہ برطانوی حکومت کا یہ اقدام معاشی اور تجارتی امور پر سیاست کی ایک اور مثال ہے۔

دراصل امریکہ سکیورٹی کو بہانہ بنا کر برطانیہ اور دیگر ممالک کو ہواوے پر پابندیاں عائد کرنے پر اگسا رہا ہے۔ حالانکہ امریکہ کی جانب سے پیش کردہ اس مفروضے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ فائیو جی سیکیورٹی ڈھانچہ ایک مکمل نظام ہے جس کی متعدد تہیں اور ڈومینز ہیں۔مختلف تہوں اور مختلف ڈومین کے مختلف ذمہ دار ہیں۔ ایپلی کیشن ڈویلپرز / سروس آپریٹرز ، ٹرمینل مینوفیکچررز ، تنصیبات تیار کرنے والے ، اور نیٹ ورک آپریٹرز سبھی اپنی اپنی ڈومین سیکیورٹی کے ذمہ دار ہیں۔ لہذا ، فائیو جی کا سیکیورٹی مسئلہ محض ہواوے کمپنی کا معاملہ نہیں ہے ، بلکہ پوری صنعت کو درپیش ایک مشترکہ چیلنج ہے۔

برطانوی حکومت کا مذکورہ فیصلہ امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے ۔اس کے علاوہ ، ہانگ کانگ کے معاملے پر چین کے ساتھ تنازعہ بھی برطانوی حکومت کے فیصلے کے پیچھے کارفرما ایک اہم وجہ ہے۔ برطانیہ "فائیو آئیز الائنس” کا ایک اہم رکن ہے ، جو امریکہ کا سب سے وفادار "اسٹریٹجک اتحادی” ہے۔

لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ معاشی اور تجارتی امورکو سیاسی رنگ دینا امریکہ کے موجودہ فیصلہ سازوں کے غلط تصوارت کا ایک اور ثبوت ہے جس کی برطانیہ پیروی کرتا چلا آ رہا ہے۔ معاشی اور تجارتی مسئلے کو حل کرنے کے لئے پیشہ ورانہ علم اور مہارت کی ضرورت ہے، تکبر اور جنون کی نہیں۔ منڈی کی معیشت کی ترقی کے اپنے قوانین اور ضوابط ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں سوال اٹھا یا کہ آیا برطانیہ میں چینی کمپنیوں کے لئے کھلا ، منصفانہ اور غیر امتیازی کاروباری ماحول مہیا کیا جا سکتا ہے، اس سے بریگزٹ کے بعد برطانوی مارکیٹ کی ترقی کی سمت کا تعین بھی ہوگا ، اور یہ برطانیہ میں چینی سرمایہ کاری کے تحفظ کا ایک بیرومیٹر بھی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ برطانیہ عملیت پسندی کیلئے مشہور ہے لہذا اس سے ہواوے کو چین کے خلاف سودے بازی کے لیے استعمال کرنا بعید نہیں ہے ۔ چین اور برطانیہ دو بڑے اور اہم ممالک ہیں ۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی اور ترقی کا انحصار چھوٹے حساب کتاب پر نہیں ، بلکہ بالغ النظری اور دور اندیشی پر ہے ۔ برطانیہ میں چینی سفیر لیو شاؤ منگ نے کہا ہے کہ دوسرے ممالک کی پیروی کرنے سے ، ” گریٹ بریٹن” کیسے گریٹ ہو سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ برطانیہ اس سوال کے جواب میں کیا سوچ وچار کرتاہے۔ دنیا کے گلوبل ویلج کے تصور کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے ۔تجارتی نقطہ نظر سے دنیا کے مختلف ممالک سپلائی چین کی ایک زنجیر میں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں ۔ زنجیر کی کسی بھی کڑی کو چیڑنے سے پوری زنجیر ٹوٹ سکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More