پاکستان کا غیر مساوی بین الاقوامی مالیاتی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ

پاکستان کا غیر مساوی بین الاقوامی مالیاتی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ

اقوام متحدہ:  پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کم آمدنی والے ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئےمناسب مدد حاصل ہو سکے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے’’ایکسپرٹ میکانزم آن دی رائٹ ٹو ڈولپمنٹ ‘‘کے 9ویں سیشن کے دوران کہا کہ ہماری سب سے بڑی ترجیح ترقی پذیر ممالک کے لیے فوری تعاون اور جزوی اور غیر مساوی بین الاقوامی مالیاتی، تجارت اور ٹیکنالوجی کے نظام میں اصلاحات کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیز رفتار اور مساوی ترقی کو فروغ دینا ہے۔

ایکسپرٹ میکانزم جنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل کو رکن ممالک کے ساتھ بہترین طریقوں کی تلاش، شناخت اور اشتراک میں ترقی کے حق پر مہارت فراہم کرتا ہے اور دنیا بھر میں ترقی کے حق کے نفاذ کو فروغ دیتا ہے۔

 پاکستانی مندوب نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں ریاستوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کو فروغ دیں وہیں اقوام متحدہ کے نظام اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی اقتصادی اور ترقیاتی پالیسیوں کو ان طریقوں سے ہم آہنگ کریں جو ترقی کے حق کے حصول میں مدد فراہم کریں۔ اس تناظر میں، انہوں نے ترقی کے بنیادی حق کو حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول کی ضرورت اور تمام انسانی حقوق کے متوازن فروغ کی اہمیت پر زور دیا۔

 پاکستانی مندوب نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک قرضوں کی زیادتی کی وجہ سے صحت اور تعلیم کے لیے مطلوبہ وسائل فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں غیر پائیدار قرضوں کا ارتکاز ایک منظم ناکامی کی نمائندگی کرتا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ترقی کے حق اور دیگر انسانی حقوق کے درمیان روابط کو نوٹ کرتے ہوئے تمام انسانی حقوق کو جامع اور متوازن انداز میں فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی کے بنیادی حق سے پیدا ہونے والے سازگار ماحول کے بغیر دیگر حقوق کو مؤثر طریقے سے فروغ دینا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ریاستوں کو ضروری وسائل فراہم کیے بغیر ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کے لیےانسانی حقوق کی مزید ذمہ داریاں نہیں ڈال سکتے۔

انہوں نے اہم عالمی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئےغیر مساوی عالمی اقتصادی نظام، تنازعات اور ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات پر توجہ مرکوز کی، جس نے ترقیاتی فوائد کوپس پشت ڈال دیا ہے، لاکھوں افراد کو انتہائی غربت میں دھکیل دیا اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز)کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے ایک سو ملین سے زیادہ افراد انتہائی غربت کے درجے میں واپس آ گئے ہیں، جن کی تعداد اب 850 ملین سے بھی زیادہ ہے جبکہ 350 ملین بھوک اور بدحالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ 60ریاستیں قرضوں کے بحران کا شکار ہیں اور 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف کا صرف 12 فیصد ہی حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے ترقی کے حق کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیتے ہوئے قانونی معاہدے کو اپنانے کی تجویز پیش کی۔

 انہوں نے کہا کہ جنیوا میں برسوں کی بات چیت کے بعد انسانی حقوق کونسل کی جانب سے ترقی کے حق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کے مسودے کی منظوری کو بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے اور ترقی کے حق کو حاصل کرنے کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر سراہا ۔

 انہوں نے امید ظاہر کی کہ جنرل اسمبلی کی طرف سے مسودہ معاہدے کو جلد منظور کیا جائے گا، جس کا مقصد ترقی کے حق کو انسانی حقوق کے دیگر فریم ورک کے برابر لانا ہے۔

بشکریہ: اے پی پی

اقوام متحدہ -منیر اکرمایکسپرٹ میکانزم آن دی رائٹ ٹو ڈولپمنٹمستقل مندوب
Comments (0)
Add Comment