بنگلہ دیشی عدالت نے مدرسے کی 18 سالہ طالبہ نصرت جہاں کے قتل کا الزام ثابت ہونے پر 16 مجرمان کو سزائے موت سنادی

مقتولہ نصرت جہاں نے مدرسے کے ہیڈ ماسٹر سراج الدولہ پر نازیبا انداز میں تشدد کرنے کا الزام عائد کیا تھا

ڈھاکہ (نیوز پلس / مانٹیرنگ ڈیسک)بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے مدرسے کی 18 سالہ طالبہ نصرت جہاں کے قتل کا الزام ثابت ہونے پر 16 مجرمان کو سزائے موت سنادی۔تفصیلات کے مطابق چٹاگانگ کے نزدیکی علاقے فینی میں قائم مدرسے کی ایک طالبہ نصرت جہاں کو رواں برس 6 اپریل کو مدرسے کے استاد کی ایما پر کچھ برقعہ پوش افراد نے آگ لگا دی تھی، جس کے بعد وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دوران علاج 10 اپریل کو انتقال کر گئی تھی۔مقتولہ نصرت جہاں نے مرنے سے قبل ایک ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اس تمام تر کارروائی کے پیچھے مدرسے کے ہیڈماسٹر ہیں۔پولیس تحقیقات میں اس قتل کے پیچھے 16 افراد کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی جس میں مدرسے کے ہیڈماسٹر اور کلاس ہی کی دو لڑکیاں بھی شامل ہیں۔عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے تمام مجرمان کو سزائے موت سنائی تو کمرہ عدالت میں موجود تمام مجرمان نے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور کہا کہ انہیں انصاف نہیں ملا۔عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروسیکیوٹر حفیظ احمد نے مقامی میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل تھا، اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی قتل کرنے کے بعد بچ نہیں سکتااس موقع پر مقتولہ نصرت جہاں کی والدہ آبدیدہ ہوگئیں اور کہا کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنی بیٹی کو نہیں بھول سکتیں، میں اب بھی وہ کرب محسوس کر سکتی ہوں جس سے میری بیٹی گزری۔دوسری جانب مجرمان کے وکیل نے کہاکہ وہ مقامی عدالت کی سزا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کریں گے۔یادرہے کہ اپنے بیان میں مقتولہ نصرت جہاں نے مدرسے کے ہیڈ ماسٹر سراج الدولہ پر نازیبا انداز میں تشدد کرنے کا الزام عائد کیا تھا جبکہ پولیس تحقیقات میں تصدیق ہوئی تھی کہ ہیڈ ماسٹر نے ہی ان کے قتل کا حکم دیا تھا۔

بنگلہ دیشسزائے موتعدالتنصرت جہاں
Comments (0)
Add Comment