Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

کرہ ارض موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ چین اور امریکا کے اشتراک سے حل کیا جا سکتا ہے

سارہ افضل
سارہ افضل

 

کرہ ارض موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ چین اور امریکا  کے اشتراک سے حل کیا جا سکتا ہے

چین اور امریکا  عالمی سطح پر اثرو و رسوخ رکھنے والے دو بڑے  ممالک ہیں ۔ دونوں کے درمیان اختلافات بھی ہیں اور دونوں کے مشترکہ مفادات بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔متعدد شعبوں میں ان کے درمیان مضبوط تعاون سے دونوں ممالک کے عوام  سمیت دیگر ممالک کو فائدہ بھی پہنچا ہے ۔ کچھ اہم معاملات پر دونوں ممالک کا موقف ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے جو تعلقات میں کبھی کبھار ایک تناو یا سرد مہری کا باعث بنتا ہے لیکن  اس سب کے باوجود دونوں جانب کے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے متحمل اور معتدل مزاج کے سیاستدان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چین اور امریکا کو مل کر کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ صرف ان ممالک کے عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ انسانیت کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری  ہے ۔

تجارت  و معیشت کے معاملات سے ہٹ کر ایک بے حد اہم چیلنج جو اس وقت دنیا کے لیے بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، وہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں   موسموں کی شدت اور اس کے نتیجے میں خوراک ، پانی کی قلت اور انسانوں کی نقل مکانی کا ہے۔ اس وقت تمام دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے اس چیلنج  سے نمٹنے کے یے اپنے تجربات  کا دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے اس پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

گزشتہ دنوں چین کے دورے پر آنے والے امریکی ریاست    کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے بھی جہاں دیگر اہم سیاسی معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا وہیں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے چین اور امریکا کے مل کر کام کرنے کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ دورہ "کم کاربن گرین گروتھ”کے معاملے پرچین-امریکا تعلقات کوآگےبڑھانےکیخواہشکے باعث کیاہے۔ چین اورامریکہ دنیا کےاخراج کے 41 سے 44 فیصد کی نمائندگی  کرتےہیں اور جب تک کہ امریکا اور چین مل کر کام نہیں کریں گے  اس وقت تک ہم اس کرہ ارض پرموسمیاتی تبدیلی کے مسئلےکو حل نہیں کرسکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کیلیفورنیا،آب وہوا کی تبدیلی کے فرنٹ لائن پرہے.

 یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں گرمی کا موسم بہت زیادہ گرم ہورہا ہے،خشک موسم اور خشکی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ ہم نے ریکارڈ توڑ گرمی، خشک سالی اور اس سال ریکارڈ توڑ سیلاب کا سامنا کیا ہے اور امریکی ریاست  کیلیفورنیا  جو دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے، آبوہوا سے متعلق امورپرذیلی وقومی سطح پر چین اور رہنماؤں کے ساتھ شراکت داری کی منتظر ہے۔  چین کی جانب سے ان کی اس بات کا مثبت جواب دیا گیا اور  چین کے وزیرِ ماحولیات نے کہا کہ  کاربن مارکیٹ، کلائمیٹ انویسٹمنٹ اینڈ فنانسنگ، آب و ہوا سے مطابقت اور ماحولیاتی قانون کے نفاذ کے حوالے سے کیلیفورنیا کے ساتھ مضبوط تبادلوں اور تعاون کا منتظر ہے۔

آب وہواکی تبدیلی کا مسئلہ ایک تکنیکی اورمعاشی مسئلہ ہے، جس میں توانائی اورنئی ٹیکنالوجیز میں نئے مواقع تلاش کرنا شامل ہے۔ گیون نیوسم کو آبوہوا کے حوالے سے سخت اقدامات کی ایک توانا  آواز کےطورپر جانا جاتا ہے ، لوگوں کا ماننا ہے کہ گورنرکی حیثیت سے وہ  اس  ذمہ داری کو سمجھتے ہیں کہ کیلیفورنیا کی برآمدی مارکیٹ کو نہ صرف ٹیکنالوجی میں بلکہ زراعت میں بھی وسعت دی جائے اور چین کے ساتھ تبادلوں کو دوبارہ شروع کرنے کی ا ن کی یہ کوششیں کیلیفورنیا کے تجارت اور آب وہوا کے مسائل پر بیجنگ کےساتھ 15 سالہ طویل قریبی تعلقات پر مبنی ہیں۔

 کیلیفورنیا کی 2035 تک نئی گیس انجن گاڑیوں کی فروخت پر پابندی اورکیلیفورنیا میں کام کرنے والی کمپنیز کےلیےآب وہواکےحوالے سے سخت قوانین کی حالیہ دو پالیسیز  نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر عالمی رہنما کی حیثیت سے اپنی ریاست کے کردار کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نیسم نے اپنے دورے کا آغاز ہانگ کانگ یونیورسٹی میں آبوہوا پر مبنی مباحثے سے کیا۔  نیوسم  نے اپنے دورہِ چین میں نہ صرف بیجنگ اور شنگھائی کا دورہ کیا  بلکہ ہانگ کانگ کے بعدچین میں انہوں نے جس جگہ کا سب سے پہلے دورہ کیا وہ  الیکٹرک  بسوں کا  ایک ڈپو  تھا ۔ چین کے شہر شینزین میں الیکٹرک بس ڈپو کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے اس حوالے سے مکمل تفصیلات حاصل کیں کہ ان بسوں کی چارجنگ ، رفتار اور کاربن اخراج کی کیا صورتِ حال ہے اور یہ شہر کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ساتھ اس کے ماحول میں بہتری کے لیے کس طرح سے اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہیں ۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کیلیفورنیا ، تیل کی پیداوار کے حوالے سے امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے تاہم گورنر گیون نیوسم ، فوسل فیولز سے نئی توانائِی کی طرف منتقلی کے لیے بے حد سنجیدگی سے اقدامات کر رہے ہیں اور چین کا یہ دورہ اسی سلسلے میں معلومات اور تجربات کے حصول  نیز مستقبل کے لیے تعاون اور اشتراک کی خواہش کا نتیجہ ہے۔

چین سبزتوانائی اور سبز توانائی کی مصنوعات کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے. اگرچہ کچھ پالیسی ساز ان مصنوعات کی فراہمی کےلئے چین پر انحصار کرنا ناپسند کرتےہیں، لیکن اس حقیقت سے اب انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ چین دنیا بھر میں سبزتوانائی کی منتقلی کے لئے ضروری ہے۔ در حقیقت، ایک دہائی سےزائد عرصہ ہو چکا ہے کہ ،چین کی مرکزی حکومت نے بڑھتی ہوئی عوامی شکایات کے بعد ماحولیات پر فوری اور  بھرپور توجہ دی  اوربڑی اصلاحات سامنے آئیں۔

 جن کے نتیجے میں ہوا، پانی اور خوراک کے معیاراورلاکھوں لوگوں کےمعیارزندگی میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے سبز جدت طرازی اورترقی میں سرمایہ کاری کو تیز کرنا شروع کیا جو کہ ابتدائی طور پر یہ اسٹریٹجک اقدام تھا۔امریکی پالیسی سازی پرتیل،کوئلےاورآٹومیکرلابیز کے اثراندازہونے کی وجہسےاس شعبے میں امریکہ پیچھے رہ گیا تھا اور چین نےاس موقع کو حاصل کرتے ہوئے عالمی رہنما کا کردار ادا کیا۔

مزید برآں، گزشتہ دہائی کے دور ان چین موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ چیلنجز سےمکمل طور پر آگاہ ہوچکا ہے. متعدد سائنسی مطالعات سے پتہ چلتا ہےکہ چین کو گلوبل وارمنگ سے وابستہ سب سے بڑے معاشی خطرات کا سامنا ہے۔ نتیجتا، چین کو احساس ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنا بقا کا معاملہ ہے اور قیادت کرنے کے لیے دوسروں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے.  یہ یوجہ ہے کہ چین مستقبل میں انسانیت کی بقا کے لیے مددگار ،گرین جدت طرازی اور ترقی، صفائی ستھرائی اورایسے دیگراقدامات کو بہت سختی کے ساتھ نافذ بھی کر رہا ہے اور انہیں فروغ دے رہا ہے۔

اس سلسلے میں یوں تو متعدد مثالیں ہیں لیکن یہاں چند مثالوں سے ہی اس شعبے میں چین کی پیش رفت اور ماحول میں بہتری کے لیے چین کے عزم کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ صوبہ انہوئی کا دارالحکومت ہیفی شہرکےآس پاس کے آبی علاقوں کو”کاربن نیٹ "کےطورپربحال کر رہا ہے جبکہ بڑے پیمانے پر چاؤہو جھیل کی صفائی کی جا رہی ہے، زہریلے مادوں کو اینٹوںمیںدبا کرکوئلےکی متروک کانوں میں دفن کیاجارہاہے۔ساتھ ہی ساتھ  یہاں سبزٹیکنالوجیزمیںبڑےپیمانےپرسرمایہکاریکی گئی ہے، دنیا میں سب سے زیادہ جدید برقی گاڑیوں کی پیداوار کے پلانٹس میں سے کئی  ہیفی میں ہیں ۔

زرعی حوالے سے دیکھیں تو چین کی قابل کاشت زمین کا ایک چوتھائی حصہ "ٹیریس فیلڈز” پر مشتمل ہے۔ اس طرح کے کھیتوں کی دیکھ بھال جان جوکھم کا کام ہے ،لیکن سیچوان، ہننان اور یوننان صوبوں کے” ٹیریس فیلڈز” چین کے خوراک کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں ۔ تحقیق کے مطابق یہ علاقے آب وہوا کی تبدیلی کےخلاف سب سے زیادہ مزاحمتی علاقوں میں سےہیں۔  نتیجتا، کم ازکم 2 ہزار سال پرانے اور شاید اس سےدوگنا پرانے ان

” ٹیریس فیلڈز” کا مطالعہ کرنے اور انہیں بہتربنانےکےلئےبہتسےنئےمنصوبےجاری ہیں۔

اس طرح کے تجربات” ٹیریس فیلڈز” کے حامل ان ممالک کےساتھ ساجھے جاسکتےہیں جن کی زراعت اسی طرز کے کھیتوں پر منحصرہے شنگھائی میں سوزو دریا کی بحالی کےمنصوبےکودیکھیے، بنیادی طور پریہ ایک دہائی قبل شہر میں ایک کھلا بڑا نالہ تھا، جسے صاف کیا گیا اور اسےایک قدرتی آبی رہائش گاہ کےطورپربحال کیا گیا تواس پانی میں مچھلیاں اورآبی پرندے واپس آگئےاورشہرنےدریاکی طوالت کے ساتھ ساتھ پارک لینڈزتعمیرکی ہیں۔ یہ اور ایسی کئی مثالیں چین کے ہر صوبے ہر کاونٹی میں موجود ہیں ۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مشترکہ ردعمل، چین اور امریکہ دونوں کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ بحران دونوں ممالکاورانسانیت کےلیےخطرہ ہے۔ دونوں ممالک کے  درمیان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور ماحول دوست ترقی کو فروغ دینے میں تعاون دونوں اطراف کی سبز اور اعلیٰ معیار کی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔یہ نہ صرف دونوں ممالک کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے  بلکہ  یہ پوری انسانیت کی ترقی کے لیے اہم ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ  امریکا ‘چین کا مقابلہ کرنے’ کی ذہنیت کو ترک کرے اور مشترکہ طور پر ایک صحت مند اور محفوظ عالمی ماحولیاتی نظام تیار کرنے کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More