Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

چین کی ویزہ فری پالیسی، چین کی انباؤنڈ ٹورازم مارکیٹ کی بحالی کے لیے مثبت پیش رفت

سارہ افضل

تحریر: سارا افضل

 

چین کی ویزہ فری پالیسی، چین کی انباؤنڈ ٹورازم مارکیٹ  کی بحالی کے لیے مثبت پیش رفت

 

چودہ مارچ کو چین نے سوئٹزرلینڈ، آئرلینڈ، ہنگری، آسٹریا، بیلجیئم اور لکسمبرگ کے عام پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے یکطرفہ ویزا فری پالیسی کا نفاذ کر دیا ہے۔ دسمبر ۲۰۲۳ کے بعد سے بین الاقوامی مسافروں کے لیے چین میں داخلے کو آسان بنانے کے لیےچین نے ایک بہتر ویزا پالیسی متعارف کروائی ، جس نے ویزا کے طریقہ کار کو آسان بنایا اور غیر ملکیوں کے لیے اخراجات کو کم کیا ہے۔یورپی یونین کے ان چھ ممالک کے شامل ہونے سے اب چین میں ویزا فری پالیسی کے حامل ممالک کی کل تعداد ۶۰ ہو گئی ہے۔

"دوہری گردش” کی ترقی کے نقطہ نظر کے ساتھ ،ویزا فری پالیسی چین کی سیاحتی مارکیٹ کی بحالی کو بھرپور انداز میں فروغ دے رہی ہے  جس سے یقیناً غیر ملکی تجارت اور سرمایہ کاری مزید مضبوط ہوگی ۔

ویزا فری پالیسی چین کی ان باؤنڈ ٹورازم مارکیٹ کی ترقی کو مختلف طریقوں سے آگے بڑھائے گی۔ سب سے پہلے تو  چین اور یورپ کے درمیان مسافر وں کی نقل و حمل کے سب سے اہم ذریعےکی حیثیت سےپروازوں کی تیزی سے بحالی انباؤنڈ سیاحت کی بحالی کی بنیاد کو مضبوط کرتی  ہے.چھ ویزا فری ممالک اور چین کے درمیان پرواز وں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ چینی ٹریول ایجنسی کمپنی سی ٹرپ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۹ میں کووڈ سے قبل پروازوں کی گنجائش کے مقابلے میں سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور لکسمبرگ میں ۶۰ فیصد تک بہتری آئی ہے۔ بیلجیئم میں ۹۰ فیصد کے قریب بہتری ہوئی ہے اور ہنگری  کی جانب سے پروازیں  دوگنا سے زیادہ ہوگئی ہیں ۔اس کے علاوہ، ویزا فری یورپی ممالک سے آنے والے سیاحوں کی اوسط آمدنی زیادہ ہے اور ان کی کھپت کی صلاحیت بھرپور  ہے. بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ۲۰۲۳ کے اعداد و شمار کے مطابق، لکسمبرگ اور آئرلینڈ کی فی کس جی ڈی پیایک لاکھ  ڈالر سے زیادہ ہے، یہ دونوں ممالک یورپ میں مالیاتی خدمات کے اہم مراکز اور بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیز کے صدر دفاتر کے طور پر کام کرتے ہیں ، جس سے یہ فی کس جی ڈی پی میں سرفہرست ہیں۔ایک بے حد ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے ، سوئٹزرلینڈ فی کس جی ڈی پی میں عالمی رینکنگ میں بھی  اور یورپ میں بھی چوتھے نمبر پر ہے۔ آسٹریا اور ہنگری بھی فی کس جی ڈی پی میں اپر مڈل رینکنگ رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ مارچ میں اس فری ویزہ پالیسی میں شامل ہونے والے  چھ ممالک کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد   چین کے سیاحتی صنعت کے اعلی معیار کو تسلیم کرتی ہے اور اسی اعتماد کے ساتھ چین کے مختلف علاقوں کی خوبصورتی کو دریافت کرنے کی خواہش رکھتی ہے، لہذا، چھ یورپی ممالک کے لیے ویزا فری پالیسی نہ صرف زیادہ یورپی سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے سازگار ہوگی، بلکہ چین کے مختلف علاقوں کی روایتی دستکاری اور ثقافتی مصنوعات کی کھپت کو بڑھا کر اس  صنعت کی ترقی میں بھی مدد دے گی اور مقامی لوگوں کے لیے بھی بے حد منافع بخش ثابت ہوگی۔ سیاحوںکی تعداد بڑھانے اور ان علاقوں کی جانب مائل کرنے کے لیے چین،میں غیر ملکی سیاحوں کو درپیش مختلف مشکلات سے نمٹے گااور متعلقہ سہولیات اور اداروں کی تعمیر کو مضبوط بنائے گا۔ اقتصادی گلوبلائزیشن کی اس رو میں چین کا بیرونی دنیا کے لیےکھلنےکاعزم مزید واضح ہو جائےگا اور چین کی سر زمین عالمی کاروباری اداروں اور سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش مقام بنے گی۔

اقتصادی و تجارتی تعاون کو مضبوط  کرنے کے طویل مدتی نقطہ نظر سے ، چھ یورپی ممالک کے لیے ویزا فری پالیسی متعارف کروانے سے چین اور یورپی یونین کی شراکت داری میں مزید بہتری آئے گی۔ اس سے پہلے بھی  چین نے جن ممالک کے ساتھ  اپنی ویزا پالیسی کو بہتر بنایاہے ان ممالک کے ساتھ اس کی تجارت اور سرمایہ کاری تیزی سے بڑھی ہے۔ مثال کے طور پر ، دسمبر 2023 میں ، چین اور سنگاپور نے اپنی ویزا استثنیٰ کی باہمی  پالیسی کے آغاز سے ٹھیک پہلے ، ڈیجیٹل معیشت اور سبز معیشت جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں عملی تعاون کو فروغ دینے کے لیے فری ٹریڈ ایگریمنٹ مزید اپ گریڈ پروٹوکول پر بھی دستخط کیے۔ آزاد تجارتی معاہدوں کے وسیع تر نیٹ ورک کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے علاقائی تجارتی بلاک کی حیثیت سے ، یورپی یونین عالمی سرمایہ کاری ، منصفانہ مسابقت اور آزاد تجارت کو فروغ دینے میں ایک اہم قوت ہے۔ اس وقت  یورپی یونین ، چین کے سب سے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے ساتھ ساتھ  مالیات ، ٹیکنالوجی اور ثقافت کے شعبوں میں بھی یورپی یونین کا چین کے ساتھ مضبوط تعاون جاری ہے۔

ویزا فری پالیسی نہ صرف چین کے لیے بیرونی دنیا کے لیے مزید کھلنے اور عالمی سرمائے کے لیے ترقی کے مواقع پیدا کرنے کا ایک اہم راستہ ثابت ہوگی بلکہ چین اور یورپ کے درمیان مفید باہمی تعاون کو فروغ دینے اور ‘ڈی کپلنگ’ کی مخالفت کرنے کے حوالے سے بھی ایک  اہم اقدام ہے۔تجارت اور پیداوار کے آزادانہ بہاؤ کے لیے ایک پل کے طور پر چین- یورپ ریلوے ایکسپریس کے کردار کو فروغ دیتے ہوئے ، چھ یورپی ممالک کے لیے ویزا فری پالیسی ،تجارتی رکاوٹوں اور اخراجات کو مزید کم کرے گی ، اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو کے فریم ورک کے تحت قواعد و ضوابط اور تعوان کے منصوبوں میں  سہولت فراہم کرے گی اور اس سے عوامی تبادلوں اور سرمایہ کاری کوبھی فروغ ملےگا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More