Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

چین کاسبز انقلاب، خاموشی سےکامیابیاں سمیٹتا آگے بڑھ رہا ہے

سارہ افضل

تحریر: سارا افضل

 

چین کاسبز انقلاب، خاموشی سےکامیابیاں سمیٹتا  آگے بڑھ رہا ہے

موجودہ عالمی اقتصادی ماحول میں جہاں  چین کی معیشت نے اپنی لچک اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے وہیں عالمی طور پر موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خطرات اور چیلنجز جیسی بڑھتی ہوئی شدید غیریقینی صورت حال کا سامنا کرتےہوئے،چین قابل تجدیدصنعت کی ترقی کو بھی تیز کر رہا ہے۔یہ مقامی سطح پر قابل تجدید توانائی کے استعمال کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے ساتھ عالمی پائیدار توانائی کی راہ تلاش کرنےکا چینی نقطہ نظر ہےجومعیشت اور معاشرے میں سبز اور کم کاربن کی ترقی کو مزید فروغ دیتا ہے۔وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کا سبز انقلاب خاموشی سے کامیاب ہو رہا ہے۔ چین نے ۲۰۲۵  میں بجلی کی کھپت کا ۱۸فیصد  نان ہائیڈرو رینیوایبلانرجی سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔  بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کی پیش گوئی ہے کہ چین ۲۰۳۰ کے لیے ہوا اور شمسی فوٹووولٹک تنصیبات کے  اپنے ہدف کو ۲۰۲۴ میں ہی یعنی  مقررہ وقت سے چھ سال پہلے حاصل کرلے گا.

کئی دہائیوں میں چین نے قابل تجدید توانائی کی ترقی کے حوالے سے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ چینی حکومت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، چین کی نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت تاریخ میں پہلی بار اس کی تھرمل پاور صلاحیت سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ  دنیا بھر میں نئی نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کا نصف سے زیادہ ہے.قابل تجدیدتوانائی کو تین گنا کرنے کے عالمی ہدف تک پہنچنے میں چین کا کردار اہم ہے کیونکہ ملک کو۲۰۳۰تک عالمی سطح پر درکار نئی صلاحیت کا نصف سے زیادہ انسٹال کرنا ہے۔ چین کی قابل تجدید توانائی کی ترقی کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی بہت سراہا گیا ہے۔آئی ای اے کی رپورٹ  کے مطابق  "چین ،قابل تجدید توانائی کا "گلوبل پاور ہاؤس” ہے۔ ۲۰۲۳  میں چین کی شمسی توانائی کی صلاحیت ۲۲۰ گیگاواٹ تک پہنچ گئی جو ۲۰۲۲میں پوری دنیا کے برابر تھی جبکہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں ۶۶ فیصد اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر ، چین ابھرتی ہوئی قابل تجدید صنعتوں پر پختہ اعتماد کا اظہار کرتا ہے اور حالیہ برسوں میں قابل تجدید وسائل کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مسلسل موثر اقدامات اختیار کیے ہیں۔

چین کی جانب سے قابل تجدید توانائی کی صنعتی ترقی پر اتنی توجہ دینے کی دو وجوہات ہیں جن میں سب سے پہلی یہ کہ  چین ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے، مشترکہ مستقبل کی حامل گلوبل کمیونٹی  تشکیل دینے کے لیے پرعزم ہے. گرین انرجی کی منتقلی بلا شبہ ہر قوم اور یہاں تک کہ ہر فرد کے مفادات سے وابستہ ہے۔آئی ای اے کی رپورٹ  کے مطابق۲۰۲۳ میںچینفی کس اخراج کی بنیاد پر، ۸ اعشاریہ ۹ٹن تک پہنچ گیا، جو ۴ اعشاریہ ۶ ٹن  کی عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ مزید برآں، قابل تجدید توانائی وافر مقدار چین کی توانائی کی منتقلی کے لئے ایک ٹھوس بنیاد رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر شمسی اور پون کی توانائی کو لیجیے، تحقیق کے مطابق  ایسے مقامات جہاں سالانہ شمسی تابکاری۵ ہزار میگاجول / مربع میٹر سے زیادہ اور سالانہ ۲ ہزار دو سو گھنٹے سے زیادہ سورج کی روشنی ہوتی ہے ، وہ چین کے زمینی رقبے کا ۶۰فیصد ہیں ، اور  ۲۵سو گیگا واٹ شمسی توانائی کی تنصیب کے لیے چین کی زمین کا صرف اعشاریہ ۸ فی صد درکار ہے۔انرجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف چائنا اور نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈریفارم کمیشن کے مطابق ۳۰۰واٹ / مربع میٹر سے زیادہ ہوا کے وسائل والے علاقوں میں،تقریبا۳ ہزار ۴سو گیگاواٹ کے کل ساحلی ہوا توانائی کےذخائر ۱۰۰میٹرکی اونچائی پر دستیاب ہیں اورپانچ سے۵۰میٹر پانی کی گہرائی والے علاقوں میں۱۰۰میٹر پر۵۰۰ گیگاواٹ کے آف شور وسائل موجودہیں۔

ایک طرف تو چین قابل تجدید توانائی کی صنعت میں گہری ترقیاتی صلاحیت رکھتا ہےدوسری طرف، چین نے قابل تجدید توانائی کی صنعت کو تقویت دینے کے لیےضروری پیمانے اور معیار پر بنیادی ٹیکنالوجیز کےساتھ ساتھ زبردست مینوفیکچرنگ کی صلاحیت میں بھی مہارت حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر شمسی توانائی کو دیکھیے، چین کی شمسی فوٹو وولٹ کمی نوفیکچرنگ کی صلاحیتوں میں حالیہ برسوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس نے ماڈیولر قیمت کو تیزی سے کم کیا ہے اور یوٹیلیٹی اسکیل اور تقسیم شدہ شمسی فوٹو وولٹک منصوبوں دونوں کی معاشی کشش میں اضافہ کیا ہے۔ یہ یقینی طور پر عالمی قابل تجدید صنعت کی ترقی کے لئے ایک مضبوط حوصلہ افزائی فراہم کرتا ہے.قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چین نے دیگر ترقی پذیر ممالک کو قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی فراہم کر کے اس شعبے اور سبز ماحول کے فروغ میں موثر کوششیں کی ہیں۔ خاص طور پر چھوٹے زمینی رقبے، کم توانائی کی طلب اور غیر ترقی یافتہ پاور گرڈز کے ساتھ ترقی پذیرممالک کے لیے، قابل تجدید توانائی مثلاً ہوا اور شمسی توانائی کی ترقی میں کم لاگت، اعلی کارکردگی اور مضبوط لچک کےنمایاں فوائد ہیں.

چین اس شعبے میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کر رہاہے اور تعاون و اشتراک کے حوالے سے بھی کھلے پن کی پالیسی پر قائم ہے ۔  آنے والے برسوں  میں چین کا ہدف ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ڈی کاربنائزیشن کو تیز کرےگا،بلکہ دنیا میں اپنی قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا جاری رکھے گا اورعالمی اخراج میں کمی ملانے میں زیادہ سےزیادہ کردار ادا کرے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More