سیاسی جماعت پارٹی انحراف پر نیوٹرل کیوں ہیں،پارٹی سے انحراف کرنے والے کو دوسری جگہ عہدہ دیدیا جاتا ہے،فرض کریں وزیراعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے،منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے
اسلام آباد(عبد الروف بزمی)سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لئیے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت نے سینٹ الیکشن کیس میں رائے دی کسی نے اسکی پیروی نہیں کی،سیاسی جماعت پارٹی انحراف پر نیوٹرل کیوں ہیں،پارٹی سے انحراف کرنے والے کو دوسری جگہ عہدہ دیدیا جاتا ہے،فرض کریں وزیراعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے،منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے،الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے،فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو منحرف رکن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی؟ارٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد نااہلی ہے،جوڈیشل کمیشن اجلاس کے سبب کیس کی سماعت طویل نہیں کر رہے۔فاروق نائیک کوشش کریں آج ہونے دلائل مکمل کر لیں۔ جس پر فاروق نائیک نے موقف اپنایا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنا مشکل ہو گا،کوشش کروں گا کل ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں۔معامله کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دئیے کہ بظاہر آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے انحراف روکنا تھا،دیکھنا ہے کہ منحرف ہونے کی سزا اتنی سخت ہے کہ رکن کے دل میں ڈر پیدا ہو یا نہیں، سب سے پہلے طے کرنا ہے منحرف ہونا درست ہے یا غلط،منحرف ہونا غلط قرار پایا تو دیکھیں گیے اس کے اثرات کیا ہوں گے،تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی سے انحراف صرف ضمیر جاگنے پر نہیں ہوتا،کئی مغربی ممالک میں پارٹی سے انحراف رکوانے کی کوشش ہے،پارٹی سے انحراف کی سزا کیا ہو گی یہ اصل سوال ہے؟ووٹ نیوٹرل ہونے کی وجہ سے آئین میں نااہلی کی سزا نہیں تھی، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دئیے کہ کونسل پارٹی سے انحراف کو جرم تسلیم کررہے ہیں،اگر پارٹی سے انحراف جرم ہے تو مجرم کا ووٹ کیوں شمار ہوتا ہے،عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے،جو بات لیڈر کرتا ہے عوام اسکے پیچھے چل پڑتی ہے،سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے،جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا وہاں استعمال غلط ہو گا، کیا الیکشن کمیشن منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس مسترد کر سکتا ہے،منحرف ہونا اتنا بڑا جرم ہے تو وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر پابندی کیوں نہیں لگائی گی۔منگل کو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ پارٹی میں رہتے ہوئے دوسری جماعت کو ووٹ دینا فلور کراسنگ ہوتا ہے،تاحایات نااہلی کے لئیے اٹارنی جنرل نے سیاسی و اخلاقی دلائل دیے تھے،منحرف اراکین کی تاحایات نااہلی پر کوئی آئینی دلیل نہیں دی گئی،ہر عمل کا دارو مدار نیت پر ہے،آرٹیکل 63 اے کی آئین میں شمولیت کی نعیت بھی دیکھنی ہو گی،آرٹیکل 62 اور 63 میں 1973 سے آج تک بہت پیوند لگے ہیں،ہر حکومت اور عامر آرٹیکل 58 ،62,63 اور 96 میں ترمیم کرتے رہے، منحرف رکن کی نااہلی اسمبلی کی بقیہ مدت تک ہو گی،قتل کا ارادہ کرنے پر 302 کا کیس نہیں بن سکتا ہے،جرم کی سزا کتنی ہے اصل سوال یہ ہے،آرٹیکل 58(2)b کے خاتمے پر آرٹیکل تریسٹھ اے شامل کیا گیا،پاکستان میں جہموریت ابھی میچور نہیں ہوئی،1973 کے آئین میں ارٹیکل 96 پارٹی انحراف سے روکنا تھا،1973 کے آئین میں منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا تھا، فوجی آمر نے آئین میں ارٹیکل 62-63 کو شامل کیا،سترہویں ترمیم میں وزیراعظم اور پارٹی سربراہ کو بے پناہ اختیارات دیے گئے،وزیراعظم کے خلاف تو سپریم کورٹ بھی کاروائی نہیں کرسکتی تھی،الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے،نوے کی دہائی میں اسمبلیاں 58-2 بی کے اختیارات استعمال کر کے تحلیل کی گئی،ارٹیکل تریسٹھ اے کا مطلب منحرف رکن کو پھانسی دینا بھی نہیں۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے معاملہ کی سماعت بدھ 20 اپریل دن ایک بجے تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔۔۔۔