Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں بری

نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں بری

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون رفرنس فیلڈ میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شرہف کو بری کر دیا۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپیل واپس لینے کی بنیاد پر فلیگ شپ ریفرنس میں نیب کی اپیل خارج کردی۔

نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف اپیل واپس لے لی۔

 مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے اسلام آباد سے بری ہونے کے بعد کہا کہ میں نے معاملات اللہ پر چھوڑ دیئے تھے، اللہ تعالیٰ نے آج سرخرو کیا ہے۔

واز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ  سپریم کورٹ نے فیصلوں میں بے نامی ،اعانت جرم اور زیرکفالت سے متعلق تشریح کی ہے، آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تفتیش کے بعد پراپرٹی کی مالیت کا مرحلہ آتا ہے،  معلوم ذرائع آمدن کا جائیداد کی مالیت سے موازنہ کیا جاتا ہے۔

وکیل نے بتایا کہ 9 اے فائیو کا جرم ثابت کرنے کیلئے تمام تقاضے پورے نہیں کئے گئے، اس کیس میں جرم ثابت کرنے کے لیے ایک جزو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے کب یہ جائیدادیں خریدیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ریفرنس میں نہ تاریخ موجود ہیں نہ ہی نواز شریف کی ملکیت کا ثبوت ہے، ظاہر کردہ آمدن کیساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اُن کی قیمت کیا تھی؟۔

 نوازشریف کے وکیل نے نیب آرڈیننس کی مختلف سیکشنز پڑھ کر سنائے اور کہا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دارکی تعریف کی گئی ہے۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی۔ سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا۔ سزا معطلی کے فیصلے سے تاثر ملتا تھا کہ جیسے اپیل منظور کرلی گئی۔

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ پراپرٹیز مختلف اوقات میں حاصل کی گئیں جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں ان کی ڈیٹس آپ کو بتا دیتا ہوں۔ 1993 سے 1996 کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں۔


 امجد پرویز ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے، زبانی نہ دستاویزی ثبوت ہےکہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہیں،استغاثہ کویہ ثابت کرنا تھا مریم نواز،حسن اورحسین میاں نواز شریف کی زیرکفالت تھے،بچوں کےنواز شریف کےزیر کفالت ہونےکا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں،ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے،بار ثبوت دفاع پرکبھی منتقل نہیں ہوتا،کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نواز شریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی بالکل یہ سب استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ نوٹس لکھ رہے ہیں یہ بہت اہم باتیں کر رہے ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جی ہم نوٹ کر رہے ہیں جسٹس گل حسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے ہاتھ میں تو قلم ہی نہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More