سپریم کورٹ کا انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت25سال عمر قید کی سزا پانے والے ملزم کو 18سال بعدرہا کرنے کا حکم
عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالت گوجرانوالہ اور لاہورہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قراردے دیئے
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اغوابرائے تاوان کیس میں انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت25سال عمر قید کی سزا پانے والے ملزم کو 18سال بعد باعزت طور پر بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالت گوجرانوالہ اور لاہورہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قراردے دیئے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر ملزم کسی اورکیس میں مطلوب نہیں تواسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔جبکہ 14سالہ بچے کی تحویل کے کیس میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا بچے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جس نے تمھیں پیدا کیا اس سے رابطہ نہیں کیا، ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے، ماں سے توہردوروز کے بعد ملنے کو دل کرتا ہے،پھوپھیوں اور دادا، دادی کے اثر میں نہ آئو۔ ماں ایک دفعہ بات کرنے سے منع کرے گی، دودفعہ بات کرنے سے منع کرے گی مگر تیسری مرتبہ ضرورت بات کرے گی۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر دومیں مختلف مقدمات کی سماعت کی۔ بینچ نے کلیکٹر کسٹمز، کلکٹریٹ آف کسٹمز (انفورسمنٹ)کسٹم ہائوس پشاور کی جانب سے مرزاخان زخیل وال اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے سید غفران اللہ شاہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ مدعاعلیہ بیٹی کے جہیز کے لئے سونا لائے تھے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ ایک ہار اوردوبالیاں ہیں۔ اس پر وکیل کسٹمز کا کہنا تھا کہ 38سے39تولے سونا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ آج کل کڑے اورچوڑیاں کتنے تولے میں بنتے ہیں، جیولرز بھی دبئی کامال یہاں لاکر بیچ رہے ہوتے ہیں، سمگلرز کو جاکرپکڑیں، مدعا علیہ توکسٹم ڈیوٹی بھی اداکرنے کے لئے تیار ہیں۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کسٹمز کا کوئی کیس نہیں بنتا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے فواد خالد اوردیگر کی جانب سے مسمات نازش فاطمہ اوردیگر کے خلاف 14سالہ لڑکے کی تحویل کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے ملک سلیم اقبال اعوان بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ درخواست گزااوراس کا بیٹااہضم فواد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
وکیل کی جانب سے بتایا کہ گیا کہ شادی ابھی تک برقرارہے، بچہ والد کے پاس ہے، ماں بی ڈی ایس ڈاکٹر ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کوئی درمیانی راستہ نہیں نکل سکتا تاکہ بچے کی پرورش بہتر انداز میں ہوسکے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اپنی اہلیہ کی تمام شرائط ماننے کے لئے تیار ہیں تاہم وہ تیار نہیں۔
بچے نے عدالت کو بتایا کہ اس کی آخری مرتبہ اپنی والدہ سے جنوری میں ملاقات ہوئی تھی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ 2017میں علیحدگی ہوئی تھی اور2019میں کیس دائر ہوا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ جب درخواست گزارکی اہلیہ چھوڑ کر گئی تواس وقت بچے کی عمر 6سال تھی۔ بچے نے بتایا کہ وہ سن اکیڈمی کراچی میں 9ویں جماعت میں پڑھتا ہے۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے بچے سے سوال کیا کہ کیا کبھی انہوں نے اپنی والدہ کو میسج کیا۔ اس پر بچے نے بتایا کہ کوئی میسج نہیں کیا۔ بچے کا کہنا تھا کہ اس کی دوپھوپھیاں، دادااوردادی ہیں۔ بچے کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال قبل اس کا موبائل فون چھن گیا تھا اس لئے اب اس کے پاس والدہ کانمبر نہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا بچے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جس نے تمھیں پیدا کیا اس سے رابطہ نہیں کیا، ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے، ماں سے توہردوروز کے بعد ملنے کو دل کرتا ہے،پھوپھیوں اور دادا، دادی کے اثر میں نہ آئو۔
جسٹس مسرت ہلالی کا بچے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوشش کرو ماں اور باپ دونوں کو ملوادو۔ عدالت نے کیس کی سماعت مئی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے قراردیا کہ آئندہ سماعت تک درخواست گزار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی اوربچہ والد کے پاس ہی رہے گا۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ماں ایک دفعہ بات کرنے سے منع کرے گی، دودفعہ بات کرنے سے منع کرے گی مگر تیسری مرتبہ ضرورت بات کرے گی۔ جبکہ بینچ نے انسداد دہشت گردی اوردیگر دفعات کے تحت عمر قید پانے والے ملز م عبدالقدیر کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ ملزم کی جانب سے مس عائشہ تسنیم بطور وکیل پیش ہوئیں جبکہ حکومت پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پیش ہوئے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ 24مارچ2006کو اغوابرائے تاوان کا واقعہ پیش آیا، درخواست گزار کو 25سال قید کی سزاہوئی اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کی وجہ سے سزامیں معافی کا فائدہ ملزم کو نہیں مل رہا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ 7مارچ کا واقعہ ہے اور9مارچ کو ایف آئی آر درج ہوئی۔
جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ تاوان کی ادائیگی کے لئے 30لاکھ روپے نکلوانے کا کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا سرکاری وکیل سے مکاملہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارا ذہن ملزم کو بری کرنے کا بن گیا ہے اگر کسی نقطہ کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں توکرسکتے ہیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ اگر درخواست گزار کو کوئی مخصوص رول نہیں دیا گیا توپھر اسے عمرقید کی سزاکیسے دے دی۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ گوجرانوالہ اورلاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قراردیتے ہوئے ملزم کو بری کردیا۔
عدالت نے قراردیا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گئیں۔ عدالت نے قراردیا کہ اگر ملزم کسی اورکیس میں مطلوب نہیں تواسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔