Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

زرعی برآمدات پر انحصار کم کرنے کی کامیاب پالیسی ، چینی معیشت کی ترقی کا ایک اہم پہلو

سارہ افضل

تحریر: سارا افضل

 

زرعی برآمدات پر انحصار کم کرنے کی کامیاب پالیسی ، چینی معیشت کی ترقی کا ایک اہم پہلو

کسی بھی ملک کی زرعی پیداوار اس کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کا اولین ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر تو وہ ملک  قدرتی طور پر ہی زرعی زمینوں سے مالا مال ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی خوش قسمتی نہیں ہو سکتی ہے اور ان زمینوں کا تحفظ، ان میں اضافہ اور ان دیہات کی ترقی پر توجہ دے کر اس خوش قسمتی کو مستحکم کیا جا سکتا ہے ۔ ہاں البتہ اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں ہو سکتی کہ اگر زرعی زمینوں اور دیہات پر توجہ نہ دی جائے یا انہیں شہروں کو بسانے کے لیے تباہ کر دیا جائے ۔ ایسا ہو تو قحط ، خوراک کی کمی اور اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار مجبوری بن جاتا ہے جو معیشت اور عوام کی کمر توڑ دیتاہے۔

چین بنیادی طور پر ایک زرعی ملک نہیں ہے تاہم گزشتہ سال تک دنیا کی سب سے بڑی آبادی اور آج دنیا کی دوسری بڑی آبادی والے اس ملک نے  خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے اور دیگر ممالک پر انحصار کو کم  سے کم کرنے کے لیے ۱۹۷۸ سے جو دیہی اصلاحات  نافذ کیں ان کے  نتیجے میں  قابل ذکر زرعی ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ زرعی پیداوار کی مجموعی قیمت میں حقیقی ترقی کی شرح 1978-2015 کے عرصے میں ہر سال  ۶ اعشاریہ ایک فی صد رہی ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات کے متعدد ادوار اور سپلائی سائیڈ میں مارکیٹ ڈیریگولیشن کے مختلف مراحل  نہ صرف پیداواری صلاحیت میں زبردست بہتری لانے میں مددگار رہے  بلکہ ان سے  زرعی عمل اور پیداواری افعال کو بھی بڑی حد تک ایک نئی شکل میں ڈھالا گیا ہے۔

اس سلسلے میں سمجھنے کی  ایک  بات یہ بھی ہے کہ زراعت سے مراد صرف اور صرف زمین سے گندم ، گیہوں اگانا نہیں بلکہ اس میں   جنگلات، مویشی پروری اور ماہی گیری بھی شامل ہیں جن میں سے  ہر ایک کا اپنا پیداواری عمل ہے۔ چین میں جاری  اقتصادی اصلاحات نے معیار زندگی اور خوراک کی کھپت کو بہتر بنایا ہے، گوشت کی  طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس وجہ سے زرعی شعبے میں مویشی پروری اور ماہی گیری کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا ہے ، جس نے زرعی پیداوار کے افعال کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ مختصراً یہ کہ چین کی  نافذ  کردہ  بنیادی اصلاحات نے طلب اور رسد دونوں حوالوں سے زرعی پیداوار کو نئی شکل دی ہے.

زرعی شعبے میں  چین نے درست سمت میں آگے بڑھتے ہوئے موجود نظام میں بہت کچھ درست کیا۔ ملک میں ٹیکنالوجیزکواپنانےاورپالیسی ٹولز کےلچکداراستعمال نےخوراک کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی اور خوراک کی فراہمی کا ایک ایسا نظام تشکیل دینے میں مددکی جو خوراک کی فراہمی کے عالمی نظام میں پیداہونے والی افراتفری کے خلاف لچکدارہو۔چین کی وزارت زراعت ودیہی امور کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر کےمتعدد علاقوں میں شدیدبارشوں،سیلاب اور خشک سالی کے باوجودگزشتہ سال ملک میں اناج کی مجموعی پیداوارریکارڈ 695 ملین میٹر کٹن تھی،جوسال بہ سال تقریبا ایک فیصداضافہ ہے۔مکمل تحفظ کو یقینی بنانے کےلیےمرکزی حکام کی جانب سےحالیہ دنوں جاری کردہ ،مرکزی دستاویز نمبر 1میںاس سال زرعی پیداوار کو بہتر بنانے اور بڑھتےہوئےعلاقےکومستحکم رکھنا حکومتی ترجیح ہے  اوراس سال کے لیے اناج کی پیداوارکاہدف 650بھی ملین ٹن سےزیادہ مقررکیاگیا ہے۔

حکومتی اداروں کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق  اس وقت ملک میں فی کس اناج کا ذخیرہ 490 کلوگرامسےزیادہ ہےجو400 کےکلوگرام کے بین الاقوامی فوڈسکیورٹی بینچ مارک سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک میں خوراک کی انوینٹری اور کھپت کا تناسب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت کی جانب سےمقررکردہ 17 سے 18 فیصدکی حفاظتی سطح سے کہیں زیادہ ہے جب کہ  2023 میں چین کی اناج کی درآمدات میں بھی سال بہ سال 11.7 فیصداضافہ ہوا ہے۔

چین کی حکمتِ عملی میں سب سے اہم پہلو مقامی پیداوار کو بڑھا کرخوراک کی درآمدات پر انحصارختم کرنا ہے۔ 2008 کے آس پاس بین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے ان ممالک کے لیےخطرےکا الارم بجا دیا تھا جوبیرون ملک پیدا ہونے والی خوراک پر انحصارکرنے کو زیادہ باسہولت سمجھتے تھے۔جب  عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوںمیںاضافہ ہوا تو ان ممالک کی معیشت پر بھی اثر پڑا  ۔ ایسے میں چین کو دیکھیے تو چینی حکومت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور حالات کی نزاکت کو سمجھا کہ اگر انحصار باہر سے خوراک منگوانے پر رہا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ عوام کو  خوراک کم قیمت پرملےگی ۔اس کے لیے فوری حکمتِ عملی مرتب کی گئی اور زرعی شعبے کو اپ گریڈ کرنے کے لیے سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی دونوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔

مقامی طور پر زرعی اجناس کی پیداوار  کے ذریعے غیر ملکی اجناس پر انحصار کم کرنے کی ایک مثال سویا بین کی کاشت ہے۔ جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز کےمطابق گزشتہ سال اناج کی درآمدات میں سویابین کاحصہ 60 فیصد سے زیادہ تھا۔حکام کے مطابق جانوروں کا چارہ تیارکرنےوالوں کی جانب سے سویابین تیل کی پیداواراور سویابین سے بننے والی خوراک کی زیادہ مانگ اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چین گندم اورچاول کے زیادہ سے زیادہ پیداواری علاقے محفوظ رکھنے اوربنیادی خوراک کی فراہمی کی حفاظت کو یقینی بنانے  کے لیے طویل عرصےسےدرآمدشدہ سویابین پرانحصارکرتا آیا تھا تاہم مرکزی حکام نے مقامی سطح پر سویابین کی فراہمی کو بڑھانےکےلیے منصوبہ بندی کی تاکہ چین ، جو حجم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا غذائی درآمدکنندہ ہے اسے تجارتی تحفظ پسندی سے لےکرعلاقائی تنازعات کی وجہ سے لاجسٹکس کی پریشانیوں، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور دیگر بیرونی عوامل کے منفی اثرات سے بچایاجاسکے۔

محکمہِ زراعت اور دیہی امور کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ سال سویابین کی کاشت کا رقبہ 10.4 ملین ہیکٹر تھا جس میں 20.84 ملین ٹن کی ریکارڈ پیداوارہوئی۔ حالیہ دنوں جاری ہونے والی مرکزی دستاویزمیں طے کیا گیا ہے کہ سویابین کے کاشتکاروں کو سبسڈی جاری رکھی جائے گی ،زیادہ پیداوار اور تیل سے بھرپور سویابین کی اقسام کی ترقی میں مدددینےکی مزید کوششیں کی جائیں گی اور سویابین کے کاشت کاروں کے لیے انشورنس کو فروغ دیا جائےگا۔سویابین کی درآمدات پر انحصاربڑھانےکی موثر حکمت عملی نے حالیہ دہائیوں میں بے حد  مثبت نتائج دیئے ہیں ۔

حالیہ برسوں میں چین کی اناج کی پیداوارمیں اضافہ اور خوراک کی مستحکم قیمتیں، ملک کے پالیسی انتظامات اور دہائیوں پر محیط تیاریوں کا نتیجہ ہیں جو دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غذائی قلت کی صورتِ حال میں امید  جگاتی ہیں ۔عالمی ماہرین کا ماننا ہے کہ چین ایک بہت بڑاملک ہے جس کی زرعی ترقی نے خوراک کے تحفظ کو مستحکم کیا ہے اور چین کا خوراک کا  تحفظ عالمی سطح پر خوراک کےتحفظ کو یقینی بناتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More