Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

کیا آپ کا نام” پاکستانی نیشنل”ہے ؟؟

ہم نے ایک ایسے ملک کی بنیاد رکھی ہے جہاں کوئی تفریق نہیں، برادریوں کا کوئی فرق نہیں ہے

سارہ افضل

سارہ افضل

 

                                کیا آپ کا نام” پاکستانی نیشنل”ہے 

 

دن میں ایک دو بار ” فیس بک واک” کرتے ہوئے کتنا ہی کچھ تیز ی سے نظروں کے سامنے سے گزرتا ہے ۔ پرانے مسائل پر نئے تڑکے ، ٹرینڈز کی آڑ میں چھپی کمینی سی ہنسیاں ، پرانی فلموں کے اڑے ہوئے رنگوں  جیسی محبت کی  کہانیاں ، نت نئی برینڈز میں چھپے عام سے لوگ ، عام سی کرسی پر بیٹھے خاص لوگ ، خود سے سوچ کر لکھنے والے ، دوسروں کی سوچ کے چھاپے اپنے نام سے چھاپنے والے ، کسی کے مرنے کی خبر پر قہقہے لگاتے ایموجی ، کسی کو شیطان کسی کو فرشتہ بتاتے مرتبان میں مقید دانشور  ، جنت اور جہنم کے فری ٹکٹ  بانٹتے  کنڈیکٹر ، قیامت کی نشانیاں اور عذابِ الہی کا سودا سجائے   پھیری والے ، غرض یک جنبش انگشت  ،آدھی سے زیادہ دنیا فلم کےمناظر کی طرح نظروں کے سامنے سے فراٹے بھرتی گزرتی ہے ۔ آج بھی  آفس میں چائےکے وقفے کے دوران یہی” فلم "چلارہی تھی کہ ایک سرخی پر ، فلم ساکن ہوئی ، افف! ایک مرتبہ پھر، کیا یہ مذاق ہے ؟ کہاں سے  آئی ہے یہ سوچ ؟ کون دیتا ہے یہ حق؟ فیصل آباد میں ایک عیسائی نوجوان کو "مقدس اوراق کی توہین کرنے پر قتل کر دیا گیا” ثبوت ؟ ؟ ندارد ۔ آنکھوں کے سامنے یکدم کئی تراشے، کئی چہرے ،پرانے نئے، سب گھوم گئے۔ کچھ دن قبل حیدر آباد میں ایک غیر مسلم پر "توہین” کا الزام لگا کر مارنے کی کوشش کی خبر ، جو تحقیق کے بعد ذاتی عناد کا نتیجہ ثابت ہوئی ، سری لنکن مینیجر کا تکلیف دہ حادثہ ، تنخواہ مانگنے پر "توہین ” کا جرم بتا کر زندہ  بھٹے میں جھونکے جانے والا عیسائی جوڑا ، مشال ، رمیز  اور کتنے ہی نام لوں  کہ جہاں اصل بات کچھ اور تھی اور جرم "توہین” کہا گیا۔  اب "توہین” اصل میں کس کی ہوئی یہ جاننا اور تحقیق کرنا تو ہمارے لیے ضروری نہیں ہے ، بس اس کا حلیہ ، اس کی سوچ  اس کا عقیدہ ،آپ جیسا نہیں ہے تو لازم ہے کہ وہ "توہین” ہی کرے گا ۔  کڑھنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی ہوں؟ سو انگلی نے سکرین کو پھر سے متحرک کیا منظر پھر بدلنے لگے ، فلم پھر چل پڑی ، سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں  اردو کی آٹھویں  کتاب کےایک  صفحے کی تصویر نظر کے سامنے آئی ،  قواعد کی مشق کے لیے کچحھ مختصر جملے لکھے ہوئے ہیں

۱۔آمنہ نے میچ جیت لیا ۔ ۲۔ بات کی گئی ۔ ۳۔ سچ بولا گیا۔ ۴۔ جو لیا کو دعوت دی گئی ۔ ۵ ۔راہول سے نظم سنی گئی ۔ ۶۔ شانتی نے سچ بولا

اس میں آخری تین جملے نشان زدہ ہیں اور اس تصویر کو پوسٹ کرنے والے کی جانب سے اٹھایا گیا  سوال ، ایک "محبِ وطن پاکستانی استاد” کے جذبات کی ترجمانی کر رہا  ہے، سوال یہ ہے کہ ” کتاب اردو کی آٹھویں جماعت کے لیے ۔۔ میں استعمال ہونے والے نام ۔۔ کیا پاکستانی زبان میں کوئی اور نام نہیں ہے؟ "میں شاذ و نادر ہی  کسی فورم پر کوئی رائے دیتی ہوں سو آج بے ساختہ یہ جرم سر زد ہو گیا اور میں نے لکھ دیا کہ "اس میں قباحت کیا ہے؟ یہ نام بھی اسی ملک میں رہتے ہیں "۔ جواب آیا ، "رہتے ہیں مگر ، پاکستانی نام لکھنے میں کیا قباحت ہے؟”  جواب پر میں ٹھٹھک گئی ، رکو رکو یہ ناموں کی بھی "نیشنیلٹی ” ہوتی ہے کیا؟ "جی ہاں اگر نیشنیلٹی نہ ہوتی تو آپ کا نام سارہ نہ ہوتا ” جواب میں مجھے باور کروایا گیا ۔’ ارے ، یہ تو میرے لیے انکشاف ہے کہ سارہ "پاکستانی "نام ہے، مگر یہاں پر تو میری ایک امریکی کولیگ کا نام بھی سارہ ، برطانوی شہزدی تھی سارہ فرگوسن ، امریکی صدارتی امیدوار تھی سارہ پالن  اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کی زوجہ اور حضرت اسحق علیہ السلام کی والدہ تھیں بی بی سارہ ،  یہ نام تو عبرانی زبان کا ہے اور عبرانی تو  یہودیوں کی زبان ہے نا ؟  بائبل میں بھی یہ نام ہے ، قرآن میں بھی ہے ، تو  پھراسے ‘ پاکستانی ” نیشنیلٹی کب ملی ؟ دماغ کی ٹرین نے کھچ کھچ شروع  کر دی ، یہ کون سی پٹڑی پر سفر ہو رہا ہے بھئی ؟  پاکستانی زبان کے نام ؟  پاکستانی نام؟ اچھا تو پھر اس صفحے پر جو پہلا نام ہے وہ "پاکستانی ” ہے ؟مگر نہیں وہ تو عربی ہے ، تو پھر پاکستانی زبان کا ہے؟  نہیں پاکستانی زبان اردو میں تو ہزارہا الفاظ عربی کے بھی ہیں۔ تو پھر پاکستانی نام کون سے ہیں ؟ اگر اس ملک میں نسلوں سے آباد راہول ، شانتی ، جولیا ، جن کے شناختی کارڈ پر قومیت میں پاکستانی لکھا ہوا ہے ، پاکستانی نہیں ہیں تو پھر وہ کون ہیں؟ ان کے ناموں کو ہی کتاب میں نہیں برداشت کیا جا رہا ،انہیں اپنے بیچ کیسے برداشت کیا جاتا ہو گا ؟ اپنے بچوں کو تمام مذاہب کا احترام کرنے، تمام قومیتوں کو اپنا کہنے کی تعلیم کیسی دی جائے گی ؟  کیا ہمارے نصاب میں پاکستانی فوج کے ہیروز میں سیسل چوہدری کا نام صرف اس لیے نہیں آسکے گا کہ ان کا نام ” پاکستانی” نہیں ہے ؟ جولیان پیٹر ، بلونت کمار داس  کی ہماری فوج میں شمولیت کو منسوخ کردینا چاہیے کیونکہ جو کل کو انہوں نے پاکستان کے لیے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا تو ہم اپنے ” پاکستانی ” بچوں کو کیسے ان ” غیر پاکستانی ” ناموں کے بارے میں پڑھائیں گے ؟ اب دیکھیے نا  سانگھڑ کی ہیلتھ ورکر ،سگنا اوڈ  جو  سیلاب زدہ علاقوں میں گھٹنوں تک کھڑے پانی سے گزر کر پناہ گاہوں میں موجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے جا رہی ہے، کیا اس کا نام لینا چاہیے؟بھلا اتنی فرض شناس کوئی” پاکستانی نام "نہیں رکھ سکتی تھی ؟

 اب جب تاریخ لکھی جائے گی {جو کہ ہم ویسے بھی اپنی مرضی ہی کی لکھتے ہیں} تو بھلا غیر پاکستانی نام تو نہیں لکھے جانے چاہئیں نا، ارد شیر کاوس جی کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کیے جانے والے کام ، بیرم دنشاوجی آواری  کے ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے ۲ گولڈ میڈلز اور آواری گروپ ، انیل دلپت کے کرکٹ ریکارڈ  ، اےنیر ، روبن گھوش، آئیرن پروین  کے پاکستانی میوزک کے لیے  شاہکار گیت ، ، بپسی سدھوا کا ادبی کام ،انتھنی لوبو  کی پاکستان میں تعلیم کے لیے کی جانے والی گراں قدر خدمات اور تو انہیں ملنے والا  صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ، یہ سب کس کام کے جب ان کے نام ہم اپنے نصاب میں شامل ہی نہیں کر سکتے ؟ بھلا ان کے کوئی ” پاکستانی "نام ہی رکھ لیتے تو کوئی مسئلہ تو نہ ہوتا نا۔ چھکا چھک دوڑتی اس ٹرین پر سوار میں جواب لکھنے لگی کہ ، "آپ طے کیجیے ، آپ ” پاکستانی ” نام کہنا چاہ رہی ہیں یا  "اسلامی ” نام ؟ آپ کا اعتراض غیر مسلم ناموں پر ہے آپ اسے پاکستانیت کا نام نہ دیجیے کیونکہ ،،، ابھی اتنا ہی لکھا کہ میرے ساتھی کولیگ نے کہا  سارہ،اتوار کا پروگرام کس موضوع پر کرو گی؟ میں نے کیلنڈر کی جانب دیکھا ، اتوار کو تو  ۱۱ ستمبر ہے ، یہ تو قائد کا یومِ وفات ہے ۔ میں نے کہا خصوصی پروگرام ہوگا اور  جو جواب لکھ رہی تھی وہ  ادھورا چھوڑ کر  پروگرام کے لیے سکرپٹ تیار کرنے لگی ،۔جواب تو بعد میں ہو جائے گا اور یہ سوال جواب {جن میں عموماً میں پڑتی نہیں } تو چلتے ہی رہیں گے ۔ فرموداتِ قائد  کھولے ہیں تو نظروں کے سامنے ان کی تقریر کا یہ اقتباس کھلا ہے

"ہم نے ایک ایسے ملک کی بنیاد رکھی ہے  جہاں کوئی تفریق نہیں، برادریوں کا کوئی فرق نہیں ہے ، ایک ذات یا مسلک اور دوسری ذات کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اگر آپ ماضی کو بھلا کر، مل جل کر کام کریں گے، تعصب کو دفن کریں گے، تو آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔اب آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اس ریاست پاکستان میں اپنی مساجد یا کسی دوسری جگہ یا عبادت میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو ، ریاست کے معاملات کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔”

میں سوچ رہی ہوں ، جن قائد کی تعلیمات کو ۱۱ ستمبر  اور ۲۵ دسمبر کے موقع پر ہم اپنے طلبہ کو ” رٹوا” کر سٹیج پر یہ دن مناتے ہیں کیا ان تعلیمات کے مفہوم کو ہمارے اساتذہ بھی سمجھتے ہیں اور بچوں کو سمجھاتے ہیں ؟ کیا ” پاکستانی نام ،بلکہ جو اصل مطلب تھا  اس ” اعتراض ” کا کہ ” اسلامی نام ”  نہ ہونے پر یہ اساتذہ ، قائدِ اعظم محمد علی جناح کے والدین ، زوجہ اور بیٹی کا  نام بھی بچوں کو بتائیں گے  ؟؟  اور اگر یہ نفرت ، یہ تعصب ، یہ علیحدہ نکالنے ، علیحدہ کر دینے ، ہم میں سے نہیں ہو ، ہمارے نہیں ہو کا رویہ اساتذہ کا ہے تو پھر ہم سب کو مزید ویسی خبروں کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جیسی خبر نے آج مجھے لمحہ بھر کو روک لیا تھا ۔ جب نام نصاب میں ہی قابلِ قبول نہیں تو یہ درس کہ انہیں اپنےماحول میں قبول کرو کون سکھائے گا ؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More