Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

چین کے زوال کی "پیش گوئیوں ” پر کان دھرے بغیر آگے بڑھتے پر عزم چینی

سارہ افضل

تحریر: سارا افضل

 

چین کے زوال کی "پیش گوئیوں ” پر کان دھرے بغیر آگے بڑھتے پر عزم  چینی  

یکم اکتوبر کو چین کا  74واں قومی دن منایا گیا۔ بلاشبہ یہ دنیا میں خود کو منوانے کی  اعلی مثال قائم کرنے والی  ایک عظیم قوم کا دن ہے ۔ آج چین جس مقام پر ہے وہاں سے پلٹ کر دیکھیں تو چینی قوم کی جدوجہد کے راستے میں آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے جنہیں عبور کرتے ہوئے آج یہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔  74برس، کسی نوزائیدہ قوم  خاص طور پر ایک ایسی قوم کے لیے یقیناً بہت کم وقت ہے جو اپنی آزادی کے وقت  غربت ، وسائل کی کمی حتی کہ دو وقت کی روٹی پوری کرنے سے بھی قاصر تھی ۔

آزادی کے اعلان کے بعد ترقی یافتہ ، خوشحال یورپ نے چین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا حالانکہ    دوسری جنگِ عظیم میں چین، امریکا، برطانیہ اور فرانس کا اتحادی  رہا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات  ، کسی بھی بین الاقوامی تنظیم میں شمولیت اور اس دنیا میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے میدان میں چین تنہا کھڑا تھا ۔ کہنے والوں نے کہا کہ اس افلاس زدہ قوم  کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں ہی کئی صدیاں لگ جائیں گی  بلکہ کچھ ” ماہرین” نے تو یہ پیش گوئی بھی کی کہ یہ ملک سنبھلنے سے پہلے ہی ختم ہو جائےگا ۔

یعنی اس کے قیام کے ساتھ ہی  چین کے خاتمے کی پیش گوئیاں کی جانے لگیں  اور اب تو یہ چین کے لیے کوئی نئی بات ہی نہیں رہی کہ ہر کچھ سال بعد کوئی بھی  خاص طور پر مغربی ممالک میں سے کسی کی جانب سے یہ پیش گوئی کر دی جائے کہ  بس جو چیلنج یا بحران اب درپیش ہے اس سے اور کوئی متاثر ہو نہ ہو چین تو ضرور ہوگا اور اس کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ اگر مغربی پیش گوئیاں درست ہوتیں تو1950 کےاوائل میں ہونے والی  چین- کوریا جنگ کے بعد یا 1960 اور 1970 کی دہائیوں  کے مشکل اور تیزی سے بدلتے حالات کی وجہ سے  ، نہیں تو سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے باعث  یا 1990 کی دہائی میں ایشیائی مالیاتی بحران  کے اثرات کے نتیجے میں ،چین کو تو اب تک دنیا کے نقشے پر نہیں ہونا چاہیے تھا ،لیکن چین اپنے قیام کے بعد سے ہی دیگر عالمی چیلنجز کے ساتھ ساتھ مغرب کے اس منفی طرزِ عمل کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا گیا اور کمزور کیا ہونا ،چین تو مزید مضبوط ہو کر  اقوامِ عالم میں نمایاں جگہ بناتا گیا ۔

 2008میں امریکی "سب پرائم” کے باعث شروع ہونے والےعالمی مالیاتی بحران کےتناظرمیں، "چین کےخاتمے” کی بات مضحکہ خیزحد تک زیرِ بحث لائی جانے لگی۔ یہ محض اپنے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر  لوگوں کو  "جھوٹی تسلی” دینے کے مترادف تھا اور اسی تمام بحث میں دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ چین نہ صرف اس طوفان سے بچ گیا بلکہ اس سال کےسمر اولمپکس کی شاندار اور مثالی میزبانی بھی کی۔ چین کے معاشی تباہی کے دہانے پر ہونے کی باتیں بڑی  چونکا دینے والی "خبریں ” ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً2001میںگورڈن چانگ کی کتاب ‘دی کمنگ گراوٹ آف چائنا’ میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ2011 تک چین ٹوٹ جائےگا لیکن اسی سال کے آخر میں چانگ نے فارن پالیسی میگزین میں اعتراف کیا کہا انکی پیشگوئی غلط تھی،لیکن اس کا کہناتھاکہ یہ ‘صرف ایک سال’ کےلیے "ملتوی” ہوئی ہےاور2012 یقینی طور پر چین کے زوال کا سال ہوگا ۔

 2012 بھی گزر گیا اور چانگ کی یہ دوسری پیش گوئی ایک مرتبہ پھر میگزین کی’سال کی 10 بدترین پیشگوئیوں ‘کی فہرست میں درج ہوئی  ۔یقینی طور پر1990اور 2000 کی دہائیوں میں معاشی ترقی کچھ حد تک سست ہوئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی بڑھتی ہوئی معیشت کسی قسم کی مندی کے بغیر اتنا بلند” کمپاؤنڈگروتھریٹ”ہمیشہ کے لیے برقرار نہیں رکھ سکتی لیکن چونکہ چین، تباہی کی تمام سابقہ پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرتا آرہا تھا لہذا اس نے یہ روایت اس دور میں بھی برقرار رکھی ۔

تاہم یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ بیس سال قبل مغربی ماہرین چینی ترقی کے بارے میں مثبت پیشگوئی کر رہےتھے۔سال2003میں "ڈریمنگ ود برکس : دی پاتھٹو2050″ریلیزہوئی،اس وقت گولڈمین ساکس کےتجزیےکاایک مخصوص حصہ انتہائی معروف ہوا تھاجس نے”مغربی معیشتیں ہمیشہ کے لیے دنیا پر حاوی رہیں گی”  کے اس وقت کے ” مستحکم نظریے”کوہلاکررکھ دیا تھا۔ساکس کے مطابق چین جلد ہی جرمنی اورجاپان سے بھی بڑی معیشت بن جائے گا اور2040 تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی نمبرون معیشت بن جائےگا۔

 تجزیے میں ان پیشگوئیوں کو ‘حیران کن’ اور ‘ڈرامائی’ تسلیم کیا گیا تھا ، تاہم آج  ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین کی حقیقی شرح نمو اس تجزیے میں کی گئی ” حیران کن” ” ڈرامائی” پیشگوئیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ گولڈمین ساکس کی تجزیاتی پیش گوئی کے مطابق 2020-2025 کے درمیان چین کی سالانہ ترقی 4.6 فیصداور2025-2030کےدرمیان 4.1 فیصدتک سست ہو جائے گی۔ یہ تخمینے رواں سال جولائی میں کی جانے والی آئی ایم ایف کی پیشگوئیوں سے کافی حدتک مطابقت رکھتے ہیں۔ اگرچہ آئی ایم ایف نے چین کی رفتار میں کمی کے بارے میں متنبہ کیا ہے، لیکن پھر بھی یہ توقع ظاہر کی ہے کہ چینی پیداوار میں اس سال 5.2 فیصداوراگلےسال 4.5 فیصداضافہ ہوگا ۔ دریں اثنا، جغرافیائی سیاسی تناؤ، کے چینی معیشت پر اثر انداز ہو نے کے بھی امکانات ہیں . خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی کے تین شعبوں سیمی کنڈکٹر، مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ میں برآمدات اور سرمایہ کاری پر امریکی پابندیاں کم ازکم قلیل مدت میں چین کی اقتصادی ترقی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

اس تمام صورتِ حال میں اگر چین کی ترقی کے حالیہ اعدادوشماردیکھیں تو کیا یہ واقعی یقینی ‘مندی’، ‘تنزلی’ یا ‘بڑےبحران’ کا  اشارہ دے رہے ہیں؟آئیے ایک سرسری نظر اس پر بھی ڈالتے ہیں ۔ حال ہی میں ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی اور کویت انویسٹمنٹ اتھارٹی کی نمائندگی کرنے والے مشرق وسطیٰ کے خود مختار ویلتھ فنڈ نے چین کی تقریباً 60  لسٹڈ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے اور بیجنگ میں اپنا دفتر کھولا ہے۔چین میں مشرق وسطی کے سرمائے کی آمدکی رفتار میں تیزی کےعلاوہ،جپی مورگن چیز، اے این زیڈن اور لومبارڈکنسلٹنگ جیسے غیر ملکی اداروں نے بھی چین کی اسٹاک مارکیٹ کےمنافع کےلیے اپنی توقعات میں اضافہ کیا ہے۔  اگست میں، چین کی کنزیومر گڈز کی مجموعی خرید و فروخت میں سال بہ سال 4.6 فیصد اضافہ ہوا، جو جولائی کے مقابلےمیں 2.1 فیصدپوائنٹس زیادہ ہے. چائنا فارن ایکس چینج بیورو کےمطابق، گزشتہ پانچ سالوں میں چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع 9.1فیصدہے،جونہ صرف یورپ اور امریکہ کے 3فیصد سےبہتزیادہ ہے بلکہ دیگر بڑی ابھرتی معیشتوں کے 4 تا 8فیصد سےبھی زیادہ ہے.

ٹیسلاکی شنگھائی گیگا فیکٹری نے گزشتہ سال ٹیسلاکی کل عالمی پیداوار کا نصف حصہ فراہم کیا ۔ اسٹاربکس نےچین میں 6,500 اسٹورزکھولےیعنی ہر 9 گھنٹےمیں ایک نیا اسٹور۔ چین کی وزارت تجارت کے مطابق رواں سال جنوری سے جولائی تک چین میںغیر ملکی سرمایہ کاری  کے ساڑھے ۴ ہزار سے زائد نئےادارے قائم ہوئے ، جو کہ 34فیصد اضافہ ہے۔ رواں سال جنوری سے جولائی تک ہائیٹیک مینوفیکچرنگ میں غیر ملکی سرمائے کے اصل استعمال میں 25.3 فیصد اضافہ ہوا اور یہ اضافہ عالمی سطح پر براہر اس تغیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کے رجحان کے باوجود حاصل کیا گیا۔

چین کے مرکزی بینک کی جانب سے ستمبر میں جو اعدادوشمار جاری کیے گئے ان کےمطابق 2023 کے پہلے آٹھ ماہ میں سوشل فنانسنگ کے پیمانے میں مجموعی اضافہ 25.21 ٹریلین یوآن رہا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 842 ارب یوآن زیادہ ہے۔ سال کی پہلی ششماہی میں چین کے جی ڈی پی میں سال بہ سال 5.5 فیصداضافہ ہوا، جو گزشتہ سال کے 3 فیصد کےمقابلےمیں کہیں زیادہ ہے۔رواں سال چین کی اقتصادی ترقی کا ہدف تقریبا 5 فیصدہے۔ ورلڈبینک،اوایسیڈی اور آئی ایم ایف نے پیشگوئی کے مطابق 2023 میں چین کی معیشت بالترتیب  5.6 فیصد، 5.4 فیصداور 5.2 فیصد بڑھے گی اور چینی معیشت کا عالمی اقتصادی ترقی میں ایک تہائی حصہ ہو گا، جو عالمی معاشی نمو کی اہم محرک قوت محرکہ  رہے گا ۔جب کہ ترقی یا فتہ معیشتوں کی شرح نمو رواں سال 1.5 فیصدرہنےکاامکان ہے جو اگلے سال کم ہوکر 1.4 فیصدرہ جائےگی۔تمام تر منفی پیش گوئیوں کے برعکس،یہ ترقی کی وہ سطحیں ہیں جن کی ترقی یا فتہ ممالک کی حکومتیں اب خواہش بھی ہی رکھتی ہیں۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ چین سے متعلق علم رکھنے والے  یہ نام نہاد ماہرین اس نتیجے پر کیسے پہنچ ہیں کہ چین ایک ایسے وقت میں زوال کا شکار ہوگا جب اس کی جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ سال اور اس سال کے پہلے آٹھ ماہ میں 5 فیصد سے زیادہ رہیاور بڑے ترقی یافتہ ممالک صفر سے 3 فیصد کے درمیان ترقی کر رہے تھے؟ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے چین کی ترقی کا سب سے طاقتور ان جنبن نے کی تصدیق کے باوجود مغربی میڈیا "چین کے زوال” کےبارےمیں خبریں کس بنیاد پر چلاتاہے؟ اور جببین الاقوامی سروے کے نتائج برسوں سے یہ ظاہرکر رہے ہیں کہ چینی حکومت کی عوام میں مقبولیت کی ریٹنگ سب سےزیادہ ہے ، تو پھر کچھ مغربی سیاستدان اور ذرائع ابلاغ چین پر انگلیاں کیسے اٹھاسکتے ہیں جب کہ ان کے اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے عدم اطمینان کے باعث عوام میں ان کی  مقبولیت کی شرح ہر سروے میں پہلے سے کم ہو رہی ہے ؟ اس سب کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ سب  "توجہ ہٹانے ” کےلیے چین کو استعمال کر رہے ہیں  اور ہر کچھ عرصے بعد ایک نئی پیش گوئی مارکیٹ میں لا کر اپنے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور چین کارڈ کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ جب کہ میڈیا "چینی امور کے نام نہاد  ماہرین ” کے ذریعے ان ” سنسنی خیز” پیش گوئیوں سے اپنی ریٹنگ اور آمدن بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم ۷۴ برسوں میں "زوال” اور "خاتمے "سے متعلق کی جانے والی کتنی پیش گوئیاں اب تک درست ثابت ہوئیں ؟ ایک بھی نہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ پانچ ہزار سال طویل تاریخ و تہذیب کا حامل ایک ایسا ملک جس نے انسانی تاریخ کی بڑی ایجادات کیں اور انسانی ترقی کی تاریخ جس کے ذکر کے بغیر پڑھی ہی نہیں جا سکتی ہے اس چین کے بارے میں محض چند کتابیں پڑھ کر ، مغربیمعیارکے مطابق اس کی معیشتاورمعاشرےکاتجزیہنہیں کیا جا سکتا اورمفروضوںکی بنیاد پر ” سچی پیش گوئیاں” کرنے کا دعوی ایسے ہی ہے جیسے پرانے چورن کو نئے ملفوف میں لپیٹ کر نئی دکان پر رکھ کر بیچنے کی کوشش کی جائے ۔ معلومات کی تیز رفتار دستیابی کے اس دور میں ایسے ناکام چورن اب نہیں بیچے جا سکتے ہیں کیونکہ اس قومی دن کے موقع پر مطمئن ، خوشحال اور ولولے سے بھرپور عوام نے دنیا  کو یہ پیغام دیا ہے کہ”چین کے خاتمے” کی پیش گوئی کے پر کان دھرے بغیر  وہ صرف محنت کررہے ہیں، زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہیں  اور اپنے ملک کا پرچم سر بلند رکھنا ان کا عزم ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More