سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا
چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔الیکشن کمیشن کو آج ہی الیکشن شیڈول کا حکم جاری کر دیا ، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ضلعی انتظامیہ کو ڈی آر اوز اور آر اوز تعینات کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس کے فیصلہ لکھوانے کے دوران پی ٹی آئی کی وکیل مشعل یوسفزئی روسٹرم پر آگئیں، جس پر چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ کہ آپ کون ہیں کیا آپ وکیل ہیں؟ جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں،آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم حکم نامہ لکھو ارہے ہیں مداخلت نہ کریں۔ دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دینگے۔
چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے حکم نامے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی لیکن ایک شخص نے ایسی کوشش کی، کیوں نہ عمیر نیازی کے خلاف توہین عدالت کی کاراوئی کی جائے عمیر نیازی کہتے ہیں کہ وہ بیرسٹر ہیں تو انہیں سپریم کورٹ حکم نامے میں کہا کہ سنگل جج ہائی کورٹ نے غیر معمولی عجلت میں فیصلہ دیا، سنگل بنچ نے اپنے دائرہ اختیار سے بڑھ کر کام کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج نے 13 دسمبر کو حکم جاری کیا، 8 فروری کو انتخابات کروانے کا سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا، انتخابات کروانے سے متعلق درخواست گزاروں میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے اگر ہائیکورٹ کا حکم برقرار رہتا ہے تو انتخابات 8 فروری کو نہیں ہو سکیں گے، الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ فاضل جج نے پیٹیشن ہی کا فیصلہ کردیا، الیکشن کمیشن کے مطابق فاضل جج نے چیف جسٹس کو لارجر بینچ بنانے کے لیے فائل بھجوادی۔
الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنچ کر دیا، اپیل میں ای سی پی نے استدعا کی ہے کہ وہ سپریم کورٹ 8 فروری کو انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں بینچ الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کررہا ہے، تین رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔
الیکشن کمیشن کی اپیل آرٹیکل 185 کے تحت تیار کی گئی ، ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل اسی ارٹیکل کے تحت دائر کی جاتی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے سوال کیا کہ کیا جلدی تھی کہ اس وقت آنا پڑا؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات 8 فروری کو کروانے کے لیے آج درخواست لازم تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میں فلائیٹ لے کر چلا جاتا تو آپ کیا کرتے؟ ہم خدمت کے لیے حاضر ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ آج کے بینج کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیچر ایکٹ کے تحت اب بینجز تشکیل دئیے جاتے ہیں ، میری خواہش تھی کہ موسٹ سینئر ججز بینچ میں شامل ہوں میں نے موسٹ سینئر ججز کے نام بینچ کے لئے تجویز کئے تھے، جسٹس اعجاز لااحسن مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے، ہم نے جسٹس منصور علی شاہ کو پھر تکلیف دی۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آر اوز ڈی آر اوز بیورو کریسی سے لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ نے معطل کیا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے انتخابی عمل رک گیا ہے، پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے ہائیکورٹ میں اپیل کی، پی ٹی آئی نے کہا کہ آر اوز ، ڈی آر اوز کی تقرری کالعدم قرار دی جائے، اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناعی دے دیا، معذرت خواہ ہیں آپ کو تکلیف دی۔
ای سی پی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ریٹرننگ افسران کے لئے پہلی ترجیح اپنے افسران ہیں۔
الیکشن کیمشن کے وکیل نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218 تھری کے تحت شفاف الیکشن کرائے جائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 218 تھری میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے؟
وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کاموقف ہے آر اوز ڈی آر اوز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس ہائیکورٹ سے مشاورت کی جائے۔
وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیر التوا مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کروانا چاہتے تھے؟
وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائی کورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کیمٹی سے رجوع کریں۔
وکیل ای سی پی نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کے لئے ختم کی جائے ، درخواست میں استدعا تھی کی الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2024 کو ملک بھر میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔
لاہور ہائیکور ٹ نے گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا جبکہ آج لاہور ہائیکورٹ نے اس معاملے پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا ہے جو 18 دسمبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔
قبل ازیں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات ہوئی، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن اور اٹارنی جنرل بھی ملاقات میں شریک تھے۔
ملاقات میں چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس سے لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر سے پیدا ہونے والی صورت حال پر گفتگو کی، چیف جسٹس کی معاملے پر سینئر ججز سے مشاورت جاری ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کروانے کا حکم دے رکھا ہے، اگر عام انتخابات 8 فروری کو ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کو آج یا کل تک الیکشن شیڈول جاری کرنا ہوگا، آئینی اور قانونی طور پر انتخابی شیڈول 54 دن کا ہوتا ہے، انتخابی شیڈول کے مطابق 17 دسمبر پہلا دن اور 8 فروری 54واں دن بنتا ہے۔