Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو ، کسی کے لیے خطرہ نہیں ہے

2013 سے،اب تک دنیا کے تمام براعظموں کے 180 سے زیادہ ممالک، خطے اور علاقائی تنظیمیں ، دی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ہو چکی ہیں

 

sara afzal       

    تحریر: سارہ افضل   

   

 

دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو ،  کسی  کے لیے خطرہ نہیں ہے              

2013 سے،اب تک  دنیا کے تمام براعظموں کے 180 سے زیادہ ممالک، خطے اور علاقائی تنظیمیں  ، دی بیلٹ اینڈ روڈ  منصوبے میں شامل ہو چکی ہیں

 

چین کا دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو 2013 میں عالمی ترقی کے ایک پروگرام کے طور پر شروع ہوا تھا جس کا بنیادی مقصد ، ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی میں  سرمایہ کاری کا فروغ تھا۔

ترقی پذیر ممالک کی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف عوامل کا ایک تسلسل ہے جس کے باعث ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچہ نسبتاً کمزور ہے۔ صدئیوں پر محیط نوآبادیاتی دور کے دوران نو آبادیاتی علاقوں  کو یورپی آبادکاری کے لیے استعمال کیا گیا یا پھر بنیادی اجناس کے حصول کے ایک ذریعے کے طور پر یا پھر  بڑے شہروں کی پیداواری منڈیوں  کو دولت کے حصولکے لیے ایک ٹکسال تصور کیا گیا اسی لیے ان علاقوں  میں کی جانے والی سرمایہ کاری بنیادی طور پر کانوں،باغات اور زرعی پیداوار میں  کی گئی تھی۔برصغیر میں ہی دیکھیں تو نسبتاً محدودحکومتی سرمایہ کاری کے ساتھ ریلوے  یاآبپاشی کے نظام کو نوآبادیاتی عمل کے فروغ کے لیے ہی بنایا گیااور اسی لیے اس سے کوئی خاص اقتصادی ترقی نہیں ہوئی۔نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کے حصول کی زیادہ تر کوششیں ناکام ہی ہوئیں۔

2013 سے،اب تک  دنیا کے تمام براعظموں کے 180 سے زیادہ ممالک، خطے اور علاقائی تنظیمیں  ، دی بیلٹ اینڈ روڈ  منصوبے میں شامل ہو چکی ہیں۔ بی آر آئی  کی مجموعی سرمایہ کاری اب تک 850 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان ممالک میں بی آر آئی کے تحت بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کو آگے بڑھانے کے عمل میں سب سے پہلے تو  توانائی، نقل و حمل، رئیل اسٹیٹ اور مختلف دھاتوں جیسے شعبوں میں منصوبہ جات کی  مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ دوسرا، یہ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے ذریعےمتعلقہ شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کو لے کر آسکتا ہے۔مثلاً، ریلوے لائنز ، سڑکوں ، شاہراہوں اور موٹر ویز کی تعمیر  میں سرکاری کے ساتھ نجی سرمایہ کاری اور زرعی شعبے میں مختلف تکنیکی سہولیات کے لیے نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔ تیسرے، سرمایہ کاری میں اضافہ،  پیداواری صلاحیت بڑھائے گا اور  طلب و رسد بڑھنے سے پیداوار کو فروغ دے گا۔

یہاں اس امر کا تذکرہ کرنا بلکہ اس غلط فہمی کو دور کرنا بہت ضروری ہے جو کہ اس منصوبے کے ناقدین کی  یک طرفہ اور متعصبانہ  آرا کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں ابھری کہ، دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو ، در حقیقت  نوآبادیاتی نظام کو زندہ کرنے کے مترادف ہے ۔ تاہم یہ سوچ بالکل بے بنیاد ہے ، کیونکہ اس منصوبے میں بنیادی ڈھانچوں اور دیگر املاک و اثاثہ جات کی تعمیر و تشکیل کسی بھی نوآبادیاتی انتظام سے قطعی مختلف ہے اور کسی طرح بھی ان سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی ہے۔ بی آر آئی میں شریک ممالک اور خطوں میںتعمیر کی جانے والی ٹرانسپورٹ لائنز، مثلاً  بندرگاہیں، ریلوے کا نظام  اور ہائی ویز  صرف چین کے ساتھ ہی رابطہ قائم نہیں کرتیں بلکہ ان ممالک میں ان کے چھوٹے بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں اور ان ممالک کو باہر دوسرے ممالک سے بھی منسلک کرتی ہیں،  جس کا فائدہ داخلی و خارجی دونوں صورتوں میں ملک اوراس کے عوام کو پہنچتا ہے ،مزید برآں، بی آر آئی میں "گڈ گورننس” کے لیے ان ممالک کی جانب سے "ادائیگی ” کا کو ئی سلسلہ  نہیں ہے جیسا کہ نوآبادیاتی دور میں برطانوی حکومت کو  ہندوستان کی جانب سے  "ہوم چارجز” ادا کیے جاتے تھے۔

ناقدین ایک اور دعوی بھی بہت شدو مد کے ساتھ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ بی آر آئی کا شراکت دار ملک قرضوں کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ان کا یہ دعویٰ صرف اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے اگر بی آر آئی کے قرضوں پر شرح سود، بی آر آئی کے قرضوں کی وجہ سے پیداوار میں اضافے کی شرح سے زیادہ ہو۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ بی آر آئی کے قرض کے تحت بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے باعث بنیادی  پیداوار کی صلاحیت میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں طلب و رسد ، کھپت  اور حاصل شدہ پیداوار میں حوصلہ افزا اضافہ دونوں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ بی آر آئی کے قرض کی ادائیگی ، بی آر آئی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی اضافی رقم کے ساتھ ساتھ حکومت کو جمع ہونے والے ٹیکس محصولات سے بھی ممکن ہے۔ اسی بنیاد  پر بی آر آئی کے شراکت دار ملک کے لیے بی آر آئی قرض کی مالی اعانت سے چلنے والے  انفراسٹرکچر  کے منصوبے  معقول  اور قابلِ عمل ہوں گے ۔

ایسا  بھی ممکن  ہے کہ  بی آر آئی کے قرضوں کا ایک حصہ غیر ملکی زرمبادلہ میں ادا کیا جائے ۔ اس کے نتیجے میں پیداوار میں اضافے کا ایک حصہ برآمد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ موجودہ صورتِ حالکے تناظر میں دیکھیں تو   یوکرین میں جاری تنازعے کے دوران ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں نے امریکی ڈالر کی بنیاد پر بین الاقوامی تجارت کے نقصانات کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بی آر آئی کےشراکت داروں کے درمیان تجارت ایک ایسی صلاحیت فراہم کرتی ہے جس کا استعمال، بین الاقوامی اقتصادی لین دین کو امریکی ڈالر پر ضرورت سے زیادہ انحصار کم کرنے میں مددگار  ہو سکتی ہے۔ برآمدات میں مطلوبہ اضافہ شراکت دار ممالک میں مناسب طور پر مربوط اورباہمی رضا مندی کی بنیاد پر کی جانے والی  سرمایہ کاری کے ذریعے ہو سکتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے ناقدین بنیادی طور پر دوباتوں سے پریشان ہیں ۔ پہلا، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیز  دی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں "مناسب” حصہ لینے سے قاصر ہیں۔حالانکہ بیآرآئیکےرکن ممالک کو ترقییافتہممالککیکمپنیز کے ساتھ باہمیطورپرقابلقبولشرائط کے ساتھ انفراسٹرکچرکےمنصوبوںمیںحصہلینےپرکوئیاعتراضنہیں ۔ مثال کے طور پر، چوتھے،راؤنڈ چائنا-فرانس تھرڈ پارٹی مارکیٹ کوآپریشن پائلٹ پروجیکٹ  فریم ورک کے تحت ، فرانسیسی کمپنیز  نے حال ہی میں بنیادی ڈھانچے، ماحولیاتی تحفظ اور نئی توانائی جیسے مختلف شعبوں کے سات منصوبوں میں چینی کمپنیز  کے ساتھ شراکت داری پر اتفاق کیا ہے۔ افریقہ اور یورپ میں لاگو کیے جانے والےیہ منصوبے اعشاریہ سات  بلین ڈالر سے زیادہ کے ہیں۔

دوسرا، ترقی یافتہ ممالک کے ان ” ناقدین”  کو یہ تشویش ہے کہ بی آر آئی کے نتیجے میں چین ترقی پذیر ممالک میں "زیادہ اثر و رسوخ” حاصل کر لے گا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر  ،بی آر آئی کے منصوبے "محض قرضوں کا جال” ہوتے تو پھر اس خدشے کی کیا بنیاد ہے ؟  حقیقت یہ ہے کہ امریکی سرپرستی میں”build back better world اور یورپی یونین کا گلوبل گیٹ وے  نامی پروگرام ، بی آر آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے شروع کیے گئے ہیں ۔ان دونوں پروگرامز  اور بی آر آئی کے درمیان مثبت و تعمیری مسابقت اور تعاون دونوں ہی ، ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اس ترقی سے مستفید ہونے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سٹریٹجک خود مختاری کو تحفظ دیتے ہوئے پالیسیاقداماتکو بروئے کار لائیں ، اس سے نہ صرف ان کی اپنی اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا بلکہ پوری دنیا اس خوشحالی سے فائدہ اٹھا سکے گی اور یہی دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو کا مرکزی اور بنیادی مقصد ہے کہ ترقی اور خوشحالی پر مبنی ایک مشترکہ معاشرہ تشکیل دیا جائے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More