دنیا سے بھوک کے مکمل خاتمے کا خواب دیکھنے والے ، یوآن لونگ پھنگ

یوآن لونگ پھنگ بے شمار افراد کی بھوک مٹانے والے یوآن فادر آف ہائبرڈ رائس کہا جاتا ہے

تحریر : سارہ افضل،بیجنگ

” میں نے بھوک دیکھی تھی ، اسی لیے میں نے اپنی اولاد کوخوراک کی قدر کرنا سکھا یا ، اور آج جب ہمارے میز پر خوراک کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے جتن کرنے والا چلا گیا تو میں ان پھولوں کی قیمت کیسے لوں جو لوگ اس کی محبت میں، اس کے لیے لے جا رہے ہیں”

یہ الفاظ چھانگ شا شہر میں پھول فروخت کرنے والے ۷۰ سالہ دکاندار کے ہیں، وہ ان پھولوں کی کوئی قیمت نہیں لے رہا تھا جوپھول یوآن لونگ پھنگ کے لیے ان کے گھر کے باہر رکھے جا رہے تھے ، جہاں ان کا انتقال ہوا تھا اس ہسپتال کے باہر اظہارِ عقیدت کے لیے جمع ہونے والے لوگ اس سے لے رہے تھے ، جو ان کی آخری رسومات میں شریک افراد لے جا رہے تھے ۔اور یہ ایک پھول والا ہی نہیں تھا ، چھانگ شا شہر میں اس دن ٹیکسی چلانے والے ان مسافروں سے کرایہ نہیں لے رہے تھے جو اس ہال تک جا رہے تھے جہاں یو آن لونگ پھنگ کی آخری رسومات ادا ہو نی تھیں۔ نوجوان طلبہ کی جانب سے رضاکارانہ طور پر ماسک اور پانی کی بوتلیں دی جا رہی تھیں ۔ ان طلبہ کا کہنا تھا کہ اس جدید دور میں انسانیت کے محسن تھے وہ ،ان کا پیغام انسانیت کی خدمت تھا اور ہم اس پیغام کو ہر ممکن انداز میں جاری رکھنا چاہتے ہیں لوگوں میں آسانی بانٹنا چاہتے ہیں ۔

یوآن لونگ پھنگ ،مایہ ناز چینی سائنسدان و زرعی ماہر ، ۲۲ مئی کی دوپہر ۹۱ برس کی عمر میں چین کے صوبہ ہو نان کے شہر چھانگ شا میں انتقال کر گئے۔ہائبرڈ چاول کے موجد ،دنیا بھر میں اسے متعارف کروا کر بے شمار افراد کی بھوک مٹانے والے یوآن فادر آف ہائبرڈ رائس کہا جاتا ہے ۔ ان کے انتقال کی خبر چینی سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔ انٹر نیٹ پر عام شہریوں سمیت دنیا بھر کی اہم شخصیات اور بین الاقوامی اداروں سے وابستہ افراد نے ان کے انتقال پر تعزیتی پیغامات بھیجے اور ان کی خدمات کو شاندار الفاظ میں یاد کیا ۔ اقوام متحدہ،اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی جانب سے بھی یوآن لونگ پھنگ کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے خوراک کے تحفظ ،غربت کے خاتمے اور عوامی زندگی کی بہتری کے لیے آنجہانی یوآن لونگ پھنگ کی خدمات کو بے حد سراہا گیا ۔ یوان لونگ پھنگ۱۹۳۰ میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ۱۹۵۳ میں ساؤتھ ویسٹ زرعی کالج سے گریجویشن کی اور اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز صوبہ ہنان کے ایک زرعی اسکول سے کیا۔خوراک کی کمی کا معاملہ انہوں نے اپنی آنکھوں سےدیکھا اور خود پر سہا تھا لہذا ان کے ذہن میں یہ خیال بچپن سے تھا کہ خوراک کی کمی کو کسی طرح پورا کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی بھی بھوکا نہ رہے ۔ اس حوالے سے ان کی تحقیقات کا سلسلہ جاری تھا کہ ۱۹۶۰ میں ان کے ذہن میں ہائبرڈ چاول کا خیال آیا ۔ تب تک سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہائبرڈ چاول کو بڑے پیمانے پر دوبارہ تیار کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور یہی وہ مسئلہ تھا جسے یوآن نے حل کیا۔ ۱۹۶۴ سے انہوں نے ہائبرڈ چاول کے ابتدائی تحقیقی تجربات اور نظریات کو تشکیل دینا شروع کیا ۔ ۱۹۶۲ میں یوآن نے ہائبرڈ چاول کی پہلی تجرباتی قسم کاشت کی تاہم عام چاول کے ساتھ تجرباتی طور پر کاشت کی گئی اس قسم کا کوئی خاص فائدہ نہیں نظر آیا لہذا یوآن نے قدرے کم معروف اور کم استعمال کی جانے والی جنگلی چاول کی قسم کے ساتھ کراس ہائبرڈائزنگ کا تجربہ کیا۔

 

۱۹۷۰ میں انہوں نے ہائبرڈ چاول کی ایک نئی قسم کامیابی کے ساتھ کاشت کی جس نےروایتی طور پر اگائے جانے والے چاولوں کے مقابلے میں فی یونٹ ۲۰ فیصد زیادہ پیداوار دی ۔ زرعی شعبے میں اس کامیابی سے چاول کی پیداوار میں چین کو دنیا بھر میں برتری حاصل ہوگئی ۔ اس کامیابی کے باعث ، یوآن لونگ پھنگ کو فادر میں ” آف ہائبرڈ رائس” قرار دیا گیا ان کی تکنیک کو ۱۹۷۹ میں امریکہ میں متعارف کروایا گیا ، یہ عوامی جمہوریہ چین کی تاریخ میں دانشورانہ املاک کے حقوق کی پہلی منتقلی تھی ۔

چینی ماہر یوآن لونگ پھنگ اور ان کی ٹیم کی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ۱۹۹۱ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی چاول کی پیداوار کا ۲۰ فیصد چاول دنیا کے ان ۱۰ فی صد کھیتوں سے حاصل ہوتا ہے جو ہائبرڈ چاول اگاتے ہیں۔ چین میں ، ہائبرڈ چاول کا اگانے کا رقبہ اب 16 ملین ہیکٹر سالانہ سے تجاوز کرچکا ہے ، جو چاول لگانے کے کل رقبے

کا 57 فیصد ہے ۔ اس وقت ، چین کی چاولوں کے کھیتوں کی کل تعداد کے ۵۰ فیصد میں ، یوآن لونگ پھنگ کے ہائبرڈ چاول کی اقسام اگتی ہیں ۔ ان کی شب و روز کی محنت و تحقیق کا نتیجہ ہے کہ ۱۹۵۰ میں چین کی چاول کی پیداوار ۵۶ اعشاریہ ۹ ملین ٹن سے بڑھ کر ۲۰۱۷ میں ۱۹۴اعشاریہ ۷ ملین ٹن ہوگئی ۔اندازے کے مطابق پیداوار میں اس اضافے کے باعث ، عام چاولوں کی پیداوار مزید ۶۰ ملین ہائبرڈ رائس ٹیکنالوجی سے چین کو تو فائدہ پہنچا ہی ہے لیکن اس سے متعدد افریقی ممالک بھی بے حد مستفید ہوئے ہیں۔ افریقی ملک مڈغاسکر اس وقت ہائبرڈ رائس ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر استعمال کر رہا ہے۔ صوبہ حونان کی یوان شی انٹرنیشنل زرعی ترقیاتی کمپنی ۲۰۰۷ سے ہائبرڈ چاول کی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے زرعی ماہرین مڈغاسکر ہائبرڈ چاول کی کاشت کے رقبے اور پیداوار کے لحاظ سے افریقہ میں سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ چینی ہائبرڈ چاول کو متعدد افریقی ممالک مثلاً نائیجیریا ، کینیا اور موزمبیق میں بھی کاشت کیا گیا اور وہاں بھی اس کے شاندار پیداواری نتائج سے ان علاقوں میں خوراک کی کمی کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملی ہے ۔ یہ چاول پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، ویتنام ، فلپائن ، امریکہ ، برازیل ، مڈغاسکر اور دیگر ممالک میں وسیع پیمانے پر کاشت کیا گیا ہے جس سے مقامی اناج کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان ، بنگلہ دیش ، ویتنام ، برازیل اور امریکہ میں اس کا پیداواری رقبہ آٹھ لاکھ ہیکٹر تک پہنچ چکا ہے ، جس میں ہر ایک ہیکٹر رقبے پر عام چاول کی نسبت دو ٹن زائد اناج پیدا ہوتا ہے۔ یوآن لانگ پھنگ کا خواب تھا کہ ہائبرڈ چاول پوری دنیا میں اگائے جائیں تاکہ عالمی غذائی قلت کو حل کیا جاسکے۔ جنوری ۲۰۱۴ میں ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ جینیاتی طور پر تیار کردہ خوراک ، خوراک کا مستقبل ہے اور یہ کہ وہ چاول کی جینیاتی ترمیم پر بھی کام کر رہے ہیں۔

ان کی خدمات کے طور پر ان کے اعزاز میں چین نے ۴ سیارچوں کو ان کا نام دیا اور ایک کالج بھی ان کے نام پر ہے ۔ ایک چھوٹا سیارہ یوآن لونگ پھنگ بھی ان ہی کے نام پر ہے۔ ۲۰۰۰ میں یوآن لونگ پھنگ کو چین کا اسٹیٹ پریمیننٹ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایوارڈ سے نوازا گیا ، یہ چین کا سب سے اعلی اعزاز ہے جسے چین کا نوبل انعام کہا جاتا ہے ، اس کے علاوہ زراعت میں وولف پرائز ورلڈ فوڈ پرائز حاصل کیا انہوں نے 1991 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت میں چیف کنسلٹنٹ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

"دن میں تین مرتبہ ، ہمارے کھانے کی میز پر میسر چاولوں کی

مہک ہمیشہ آپ کی یاد دلائے گی”

ایک چینی شہری کے انٹرنیٹ پر بھیجے گئے پیغام کے یہ الفاظ خوراک کی نعمت کو ہر ایک تک پہنچانے والے ایک عظیم انسان کی اس جدوجہد کا اعتراف ہیں جنہوں نے چینی قوم کو خوراک کی عدم دستیابی کے خوف سے آزاد کر دیا۔ ان کی تحقیق اور ان تھک نے محنت نے آنے والی نسلوں کو بھوک سے بچا لیا ۔

” یوآن نے ایک بار کہا تھا کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ان کے اردگرد کے پودے بےحد بلند ہیں اوروہ ان کے سائے میں آرام کر رہے ہیں چاول یقیناً انسانیت کے لیے ان کی یہ بے لوث خدمات رہتی دنیا تک ان کےلیے راحت کا سامان ہوں گی۔ "

چینی سائنسدانہائبرڈ چاولیوآن لونگ پھنگ
Comments (0)
Add Comment