قانون کی لاقانونیت

اس ملک میں عملاً اندھیر نگری،چوپٹ راج ہے

                                                                                      صغرا بی بی (ایڈووکیٹ)

        

                قانون کی لاقانونیت  

ھم ایک ایسے دیس کے باسی ہیں کہ جہاں حادثوں کی روک تھام کے لئے بھی کسی حادثے کے رونما ھونے کا انتظار کیا جاتا ہے، جہاں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز عملاً اپنا وجود نہیں رکھتی ہے اور جہاں "جسکی لاٹھی اسکی بھینس”کا فارمولا چلتا ہے، مگر بات اب اس سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، سولہ جنوری 2023 کا دن ملک بھر کی وکلاء کمیونٹی کے لیے دکھ کا سورج لیکر طلوع ہوا کہ جب ایک ہی دن میں دو مختلف واقعات میں دو نامور وکلاء کو ٹارگٹ کر کے قتل کر دیا گیا، اعلی صبح راولپنڈی میں راولپنڈی بار کے ایک وکیل کو ان کے معصوم بچوں کے سامنے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مورخہ14 جنوری 2023 کو پنجاب بھر میں وکلاء تنظیم سازی کے لیے الیکشن منقعد ھوے تھے، اتوار کی چھٹی کے باعث 16 جنوری کو وکلاء جیتنے والے نمایندوں کے لیے خوشیاں منانے میں مصروف تھے اور تقریب خلف برداری بھی منقعد کی جانی تھی، مگر ان وکلاء کے قتل نے فضا کو سوگوار اور مغموم کر دیا، راولپنڈی بار نے تمام تقریبات کو فلفور منسوخ کردیا، مگر یہ غم ابھی تازہ تھا کہ ایک اور روح فرسا خبر نے مزید دکھی کر دیا کہ ملک کے نامور قانون دان لطیف آفریدی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کو دن دخاڑے ھای کورٹ بار ایسوسی ایشن میں گولیوں سے بھون کر رکھ دیا گیا، اور انہیں خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا،

؛ انہیں صدیوں نہ بھولے گا دل

یہاں جو حادثے کل ھو گئے ہیں

لطیف آفریدی قانون کی دنیا کا ایک ممتاز اور منفرد نام تھے، وہ نہ صرف وکیل تھے بلکہ وکلاء کے صف اول کے رہنما بھی تھے، ان کا نام وکلاء اور جوڈیشرئ کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، وہ سپریم کورٹ بار کے صدر بھی رہے ہیں، وہ آمریت کے  خلاف جدوجہد کی ایک علامت تھے اور آمریت کو للکارنے والی وہ مظبوط آواز تھے جسے نہ دبایا جا سکا اور نہ ہی خاموش کیا جا سکا، بقول شاعر

میں بکا نہیں، میں جھکا نہیں

میں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں

جو ڈٹے ھوے ھیں محاذ پر

مجھے ان صفوں میں تلاش کر

کچھ انسان اپنی ایک زندگی میں کئی زندگیاں جی جاتے ہیں اور اپنے شعبے کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، لالا لطیف آفریدی بھی ایک ایسا ہی نام تھے، بہت کم نامی گرامی ایسے ھوتے ہیں-

ایک ہی دن میں دو مختلف صوبوں میں دو نامور وکلاء کے قتل نے جہاں وکلاء کی سکیورٹی، جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے سوالات کو جنم دیا وہاں اس تاثر کو بھی تقویت ملی کہ اس ملک میں عملاً اندھیر نگری،چوپٹ راج ہے، آئے روز وکلاء کے خلاف پر تشدّد کارروائیاں، قتل اور اقدام قتل جیسے اقدامات اس امر کا بین ثبوت ھیں کہ اگر اس ملک میں وکلاء ان حملوں سے محفوظ نہیں تو پھر عام عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، مگر اب بات بڑھ گئی ہے اور بات وکلاء نمایندوں پر حملوں تک پہنچ گئی ہے اور یہ حملے اب تواتر کے ساتھ معمول بن گئے ہیں، ان سب حالات میں سوال یہ ہے کہ وکلاء کمیونٹی کے تحفظ کے لئے راست اقدامات کیوں نہیں کئے جا رہے ہیں کہ

؛ منصف ھو اگر تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے،

یا پھر ھمیں یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ یا تو تمام وکلاء کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے یا پھر ھمیں یک جنبش ہی ہستی سے مٹایا جائے تاکہ جن طاغونی طاقتوں کو ھماری موجودگی کھٹکتی ھے ان کو چین ملے-

بہر طور لالا لطیف آفریدی کا بار روم میں اور شیخ عمران کےسرعام، سرراہ قتل نے یہ واضح کردیا ہے کہ وکلاء اب کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں- اس تاثر سے ملک بھر کے وکلاء میں شدید بے چینی اور غم وغصہ کی شدید لہر پایء جاتی ہے مگر ارباب اختیار اب بھی چین کی بانسری بجا رھے ھیں، اس کے سب سے زیادہ قصور وار اور عفلت کے مرتکب وکلاء نمایندہ تنظیمیں ہیں جوکہ کسی بھ ایسی کارروائی کی صورت میں رسما بیان جاری کر کے اور وکلاء ھڑتال کا اعلان کر کے بری الزمہ ھوجاتے ھیں، اب بھی وقت ھے، خدارا ھوش کے ناخن لیں، اور وکلاء کے جان و مال کے تحفظ کیلئے قانون سازی کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور طاقت کے ایوانوں میں بیٹھ کر خود کو محفوظ نہ سمجھ ورنہ یہ آگ سب کو جلا کر خاکستر کر دے گی، اور کسی کے ھاتھ کچھ نہیں آئے گا-

مزید برآں اگر ان واقعات کی روک تھام کیلئے خکمت عملی نہ بنائ گی اور اس سلسلہ کو نہ روکا گیا تو انسانی حقوق کے شدید بحران کا المیہ جنم لے گا پھر خالات کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔

رایٹر انسانی حقوق کی پنجاب بار کونسل کمیٹی کی چیرمین ھیں اور وکیل ھیں۔

پاکستانقانون
Comments (0)
Add Comment