رنگ روڈ راولپنڈی پاکستان کی بہتہ گنگا

ملک کو چلانے کے دعوے دار وزیر مشیر جج جرنیل اپنا اپنا مال بنا کر ہاتھ دھو رہے ہیں

رانا تصدق حسین

طمانچے

پاکستان کرپشن کی دلدل میں روز بروز دنھستا جا رہا ہے غریبوں کو لوٹا جا رہا ہے عمران خان گھبرانا نہیں کی بانسری بجا رہے ہیں

پاکستان ایک بہتی گنگا ہے جس میں ملک کو چلانے کے دعویدار جج جرنیل وزیر مشیر ملک اور قوم کو لوٹنے میں مصروف ہیں

آٹا چینی سکینڈل ہو ، پیٹرول اسکینڈل ، ادویات اسکینڈل ، کرونا فنڈ ہو پاپا جان پیزا ہو راولپنڈی رنگ روڈ ہو سب کچھ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے

عمران خان نے کرپشن کرنے پر وزیروں مشیروں کو پھانسی پر لٹکانا تھا

وزیراعظم بننے کے بعد وزیراعظم عمران خان کرپٹ لوگوں کو پہلے سے بڑی وزرات یا کلین چیٹ دیتے ہیں

راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری علاقوں کو ٹریفک کے رش سے بچانے اور شہر کے اطراف میں دیگر شہروں کی طرح ایک بائی پاس یا رنگ روڈ منصوبہ اپنی تعمیر سے پہلے ہی متنازع ہو گیا ہے

منصوبے میں مبینہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے الزامات کے بعد وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانی ذوالفقار عرف زلفی بخاری اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ جب کہ راولپنڈی ڈویژن کے ایک کمشنر، دو ڈپٹی کمشنرز، اسسٹ کمشنرز اور کئی متعلقہ عہدے داروں کو عہدوں سے ہٹایا جاچکا ہے۔ یہ منصوبہ ہے کیا اور اس میں کرپشن کے الزامات کیا ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے تحت شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے باعث راولپنڈی شہر کے قریب سے گزرنے والی ٹریفک کو شہر کے مضافات سے گزارنے کے لیے لاہور کی طرز پر ایک رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس منصوبے کا مقصد نہ صرف شہر کے باہر سے گزرنے والی ٹریفک کا دباؤ کم کرنا تھا بلکہ اس کی مدد سے شہر کے اندر ٹریفک کے نظام کو مزید بہتر بنانا تھا۔

سن 2017 میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا جس کے لیے ایشیائی سرمایہ کاری بینک نے 400 ملین ڈالر قرض دینے کا فیصلہ کیا۔

سن 2018 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی تو میسرز ‘زیرک’ نامی کمپنی کو اس منصوبہ کی فزیبلٹی رپورٹ بنانے کا کہا گیا۔

اس کمپنی نے فزیبلٹی رپورٹ بنائی جس کے مطابق اس منصوبہ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر بنایا اور چلایا جانا تھا

اس منصوبے کے لیے 27 دیہات سے تقریباً 14 ہزار 600 کنال اراضی حاصل کی جانی تھی اور آٹھ مختلف مقامات پر انٹرچینج قائم ہونا تھے جن مقامات پر انٹر چینج بننا تھے ان میں ریڈیو پاکستان، روات، چک بیلی، اڈیالہ، چکری، ایم ٹو موڑ، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور سنگجانی شامل تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈرائی پورٹ، اسپتال اور تفریحی پارک کا منصوبہ بھی اس میں شامل تھا

زیرک کمپنی نے اس منصوبے کی جو ابتدائی فزیبلٹی رپورٹ دی وہ وقت گزرنے کے ساتھ تبدیل ہوئی اور اس کا دائرہ کار 36 کلو میٹر سے بڑھ کر 65 کلو میٹر کر دیا گیا رنگ روڈ راولپنڈی کا اور پہنچ اٹک تک گیا اور یہیں سے اس منصوبے میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کا آغاز ہوا۔

پنجاب حکومت کی جاری کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر کمشنر راولپنڈی سید گلزار شاہ کے دستخط موجود ہیں جب کہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق کی سربراہی میں اس کمیٹی نے دس روز میں اپنا کام مکمل کیا ہے۔

اس رپورٹ میں سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود پر ڈیزائن کی تبدیلی کی ذمے داری عائد کی گئی ہے، 35 نکات پر مبنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو وزیرِ اعلی پنجاب نے پبلک کرنے کی منظوری دی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق 2017 میں تیکنیکی معاونت کے ادارے ‘نیسپاک’ نے راولپنڈی رنگ روڈ کا نقشہ منظور کیا اور پھر 27 مارچ 2018 کو وزیرِ اعلٰی نے منصوبے کی منظوری دی۔

ابتدائی طور پر 36 کلو میٹر طویل راولپنڈی رنگ روڈ کے تعمیر کی منظوری دی گئی بعد میں نقشے میں تبدیلی کا بڑا مقصد مبینہ طور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بڑے گروپوں کو فائدہ دینا تھا۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں 12 ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ڈیزائن کی تبدیلی کے بعد برے پیمانے پر اشتہاری مہم چلا کر اربوں روپے کی زمین عام شہریوں کو فروخت کر دی ہے۔

رپورٹ میں وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو ان ہاؤسنگ اسکیمز کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کے خلاف پراجیکٹ کی حتمی منظوری ہونے سے پہلے ہی 25 ارب روپے کی زمین خریداری کے لیے ادائیگیاں کر دینے پر نیب کو تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں سابق کمشنر محمد محمود کے بھائی کا ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ تعلق کا انکشاف بھی کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ سابق کمشنر نے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے یا اس کے ذریعے بے نامی طریقے سے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔

کمیٹی نے کنسلٹنٹ کمپنی میسرز زیرک کو بلیک لسٹ کرنے کی بھی سفارش کی۔

رپورٹ میں پاکستانی فوج کے بعض سابق افسران کا نام بھی شامل ہے اور متعلقہ اتھارٹیز کو کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور میجر جنرل سلیم اسحاق کے معاملات کی تحقیقات کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق 2018 سے 2021 کے درمیان رنگ روڈ سے متصل نو موضع جات میں 11 ہزار 387 کنال اراضی کے لیے آٹھ ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کی 490 غیر قانونی ٹرانزیکشن کی گئی ہیں۔

یہ صرف وہ ٹرانزیکشن ہیں جن کا بینکنگ ریکارڈ تحقیقاتی اداروں کے پاس موجود ہے۔ کیش میں ہونے والی ٹرانزیکشن کا ابھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ عوام کی طرف سے خریداری کے لیے کتنی رقوم خرچ کی گئیں اس بارے میں بھی ریکارڈ صرف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پاس موجود ہے اور کسی ادارے کو یہ ریکارڈ اب تک فراہم نہیں کیا گیا۔

راولپنڈی کی یہ رنگ روڈ جن علاقوں سے گزرنا تھی ان میں غلام سرور خان کا حلقۂ انتخاب بھی شامل ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان کے قریبی عزیزوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بھاری سرمایہ کاری کی اور اربوں روپے کا منافع کمایا۔

وزیراعظم کے قریبی ساتھی زلفی بخاری نے اس منصوبہ میں نام آیا ہے زلفی بخاری کے قریبی عزیزوں اور فرنٹ مین کے ذریعے فوائد حاصل کیے

راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل انکوائری میں اینٹی کرپشن تحقیقاتی ٹیم نے 16 ہاؤسنگ سوسائٹیز کو نوازنے کے ثبوت حاصل کرلیے۔

سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود کے منع کرنے کے باوجود سابق لینڈ ایکوزیشن کمشنر (ایل اے سی) وسیم تابش نے لینڈ ایکوائر کرنے کی مد میں 16 ہاؤسنگ سوسائیٹیز کو سرکاری خزانے سے اربوں روپے ادا کیے اور ان سے 480 کنال زمین ایکوائر کی۔

دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ ’سستی سوسائٹی‘ سے 160 کنال زمین 5 کروڑ 52 لاکھ روپے میں ایکوائر کی گئی

بااثر ہاؤسنگ سوسائٹیز کی زمین 30 لاکھ روپے کنال کے حساب سے ایکوائر کی گئی۔ سابق ایل اے سی نے رنگ روڈ کے لیے خود قانون میں ترمیم کی اور پروگرس ریویو کمیٹی کی ہدایت کے برعکس ادائیگیاں کیں۔ تحقیقاتی کمیٹی نے پی ایم یو اور آر ڈی اے سے تصدیقی رپورٹ بھی طلب کرلی

واضح رہے کہ بااثر افراد کے کہنے پر راولپنڈی رنگ روڈ کے ڈیزائن میں تبدیلی کردی گئی جس کا مقصد اس منصوبے کے ارد گرد موجود نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو فائدہ پہنچانا تھا، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 25 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس روڈ نے جہاں سے گزرنا تھا وہاں لینڈ مافیا اور سرکاری افسران کی ملی بھگت سے ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار کر دی گئی اور پھر ان سے مہنگے داموں زمین خریدی گئی

پچھلے کچھ دنوں میں اس سکینڈل کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا

جتنا آپ اس سکینڈل کی تفصیلات میں جاتے ہیں حواس باختہ ہوجاتے ہیں کہ پاکستان میں بڑے بڑے لوگ کتنی بڑی بڑی جعلسازیاں اور فراڈ کس قدر آسان اور بغیر کسی خوف کے انجام دیتے ہیں اور کبھی پکڑ میں نہیں آتے۔

آپ صرف اِسی ایک رنگ روڈ راولپنڈی کے سکینڈل کو سٹڈی کر لیں آپ کو پاکستان میں کرپشن کے گٹھ جوڑ کا اندازہ ہو جائے گا

سیاست دانوں، بڑے چھوٹے سرکاری افسروں، اہلکاروں، ماتحتوں، بیوروکریسی، حکومتی عہدے داروں، ریٹائرڈ جرنیلوں (جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد پراپرٹی کے ذاتی کاروبار شروع کر دیے) کے تعاون اور ملی بھگت سے کس طرح قلیل عرصے میں غریب عوام کی جیب سے ان کی سالوں کی حق حلال خون پسینے کی کمائی بٹور لی گئی اور اس اربوں کے پیسے کا احتساب کبھی نہیں ہو گا

کرپشن کے خلاف جنگ کے دعوے دار عمران خان کو صرف مخالفین ہی کرپٹ نظر آتے ہیں

عمران خان ان مافیاز سے فنڈ لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ کرپشن نہیں کرسکتے

جس طرح آٹا چینی سکینڈل میں عمران خان نے کہا تھا میں نہیں مانتا کے جہانگیر ترین خسرو بختیار نے کوئی لوٹ مار کی ہو

ایک طرف غریب کی کمائی لوٹ لی گئی، دوسری طرف عوام ہی کے ٹیکس کے پیسے کی چوری جو اِس توسیعی منصوبے کے تکمیل تک پہنچ جانے کی صورت میں کی گئی

وفاقی وزیر غلام سرور خان تو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نووا سٹی میں ان کے کنکشن براستہ صاحبزادے منصور حیات خان (ایم این اے) تو سامنے آہی گئے ہیں۔

دوسرا ان کے بھتیجے (صدیق خان کے صاحبزادے) عمار صدیق خان (ایم این اے) بھی نووا سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ منسلک ہیں

ماسٹر نثار نامی ایک بے نامی دار کے ذریعے مبینہ طور پر غلام سرور خان کی طرف سے نووا سٹی کو بھاری رقوم ادا کی گئیں۔

یہ ماسٹر نثار صرف وفاقی وزیر کا فرنٹ مین ہی نہیں ان کے پولیٹیکل سیکرٹری کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں

اس سکینڈل میں وفاقی وزیر غلام سرور خان کے ساتھ زمینوں کے لین دین میں PTI راولپنڈی کینٹ کے ایک عہدے دار محبوب کا نام بھی سامنے آتا ہے جو پنڈی کے بڑے ٹرانسپورٹر بھی ہیں

مختلف افراد، بے نامی داروں، فرنٹ مینوں کے ذریعے اس قدر گنجلک اور باریک کام کیا گیا ہے کہ کوئی سِرا ہاتھ آنا مشکل ہے۔

جب حکومت یہاں تک کہ وزیراعظم خود ملوث ملزمان کو کلین چٹ دینے لگیں تو وہاں انصاف کی کیا توقع اور قانون کی بالادستی کسی جنونی مجنون کا خواب لگتا ہے۔

ایک ریٹائرڈ جنرل سلیم اسحاق پر بھی رنگ روڈ سکینڈل کے بینیفشری ہیں ان جنرل صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد پراپرٹی کا وسیع پیمانے پر بزنس شروع کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان سے بھی ان کے خاندانی تعلقات ہیں۔ رشتے میں ان کے بہنوئی (کزن کے شوہر) ہوتے ہیں۔ اونچے گھرانے سے تعلق ہے اور اسی بنا پر پنجاب میں میل جول، دوستیاں، اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق بھی نقشے میں توسیع کے دوران ان کی تین ہزار 200 کنال زمین میں سے 70 کنال زمین رنگ روڈ توسیع کے لیے حکومت نے خرید لی غلام سرور خان کو 30 لاکھ روپے فی کنال میں سرکاری طور پر خرید کر تہرا فائدہ پہنچایا گیا۔

اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صرف ایک وفاقی وزیر نے اِس سکینڈل میں صرف چند ماہ کے عرصے میں مبینہ طور پر کتنا پیسہ کمایا اور ابھی یہ رنگ روڈ تعمیر تک نہیں ہوئی

حکومت تو خوشی کے ڈھول پیٹ رہی ہے اور کریڈیٹ کے طور پر فخریہ بتاتی ہے کہ اس نے محض دو ارب روپے کی چوری پر ہی یہ سکینڈل پکڑ لیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو کئی اربوں کا چونا لگ چکا ہے۔

رپورٹ پڑھیں تو وہ بتاتی ہیں کہ رنگ روڈ توسیع کے منصوبے میں آنے والی صرف ایک تحصیل فتح جنگ کے صرف ایک موضع میں بکنے والی فائلوں کے عوض آٹھ ارب روپے کمائے گئے اور یہ آٹھ ارب روپے کی خطیر رقم صرف بینکنگ ٹرانزیکشنز کے ذریعے ٹریس ہوئی ہیں۔

غیر قانونی طور پر اِس مکمل منصوبے میں کتنے اربوں کا لین دین ہوا؟

اس کا کوئی حساب نہیں۔

اب تک کی جو اطلاعات، خبریں اور آثار سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق زلفی بخاری اور غلام سرور خان اس سکینڈل کے مبینہ بینیفشری ہیں لیکن جب حکومت باضابطہ فارنزک آڈٹ یا آزادانہ ادارہ جاتی انکوائری سے قبل ہی اپنے پیٹی بھائیوں کو کلین چٹ دینا شروع کردے گی تو پھر کہاں کا انصاف۔

ستم ظریقی تو یہ بھی ہوئی کہ کرپشن کے پیسے بٹورنے کے ساتھ ساتھ رنگ روڈ توسیع کے ٹیکنیکل گراؤنڈز پر سی پیک جیسے قومی مفاد کے منصوبے کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان نے لاہور میں نیوز کانفرنس میں تسلیم کیا کہ اس اسکینڈل میں ہماری حکومت کے کچھ لوگوں کے علاوہ بیوروکریسی کے چند افسران بھی ملوث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو بلا امتیاز قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب سابق کمشنر محمود احمد کی طرف سے دو ارب 30 کروڑ روپے غیر قانونی طور پر خرچ کرنے کی انکوائری کرے گا۔ یہ رقم غیر قانونی طور پر ایسی اراضی کی ایکوزیشن کے لیے خرچ کی گئی جس کے نتیجے میں بااثر افراد کی ملکیتی رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

کیا پاکستان سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے؟

اُن کا کہنا تھا کہ طاقت ور افراد کے بے نامی فرنٹ مین ہونے کی بنا پر بعض رہائشی اسکیموں کے خلاف بھی انکوائری کی جا رہی ہے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور وفاق میں حکومتوں کو اِس سلسلے میں حقائق سے مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا گیا اور اعلیٰ ترین سطح سے اس الائنمنٹ کو وزیرِاعلیٰ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایات کو دانستہ طور پر مسلسل نظر انداز کیا گیا

صوبے میں کرپشن ہو رہی ہے وزیر اعلی کو پتہ ہی نہیں البتہ وزیراعظم عمران خان کو پتہ چلا اور وہ اپنے وزیروں مشیروں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں

کیونکہ وہ عمران خان کو فنڈ کرتے ہیں

لیکن خان صاحب ایمان دار ہیں

رنگ روڈعمران خان
Comments (0)
Add Comment