چین اور روس کے مل بیٹھنے پر امریکا کا تلملانا بنتا ہے

کیا امریکا واقعی "دوست "ہے ؟ امریکی تاریخ ہمدرد بن کر قبضہ کرنے اور افواہوں کی بنیاد پر معاملات چلانے بگاڑنے کے واقعات سے بھری پڑی ہے

تحریر: سارا افضل

 

                                                                                                                           چین اور روس کے مل بیٹھنے پر امریکا کا تلملانا بنتا ہے  

چینی  صدر روسی صدر کی دعوت پر ۲۰ سے ۲۲ مارچ تک روس کا دو روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں اور اس دورے کو دوستی، تعاون اور امن کا دورہ  کہا جارہا ہے ۔ ایران-سعودی عرب  تعلقات کی بحالی کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ چینی صدر نے روس کے دورے کا آغاز کر دیا اور مغربی ممالک خصوصاً امریکا ، جو ایران- سعودی عرب معاہدے کے” غیر متوقع ”  جھٹکے سے سنبھلا نہیں تھا  اس پیش رفت سے مزید  جزبز ہو رہا ہے۔

مشرقِ وسطی میں دہائیوں سے افراتفری اور نفرت کا کاروبار کرنے والے امریکا پر سے  جب اس خطے کے ممالک کا اعتماد اٹھ گیا  تو  نتیجہ ” ازلی دشمنوں ” کے ” دوست ” بننے کی صورت میں سامنے آیا اور اس خطے  کے امریکی  ” دوست” اس سے کچھ کھنچ گئے ۔ دوسری طرف  جب  روس- یوکرین تنازع نے توانائی کا بحران پیدا کیا   تو امریکا کے یورپی اتحادی بلبلا اٹھے اس پر طرہ یہ کہ اس بحران سے سب سے زیادہ مالی فائدہ بھی امریکا ہی نے اٹھایا اور اپنے دوستوں سے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر کر اپنی جیبیں بھریں ۔

 یورپی یونین میں ایل این جی کی طلب میں اضافہ ہوا تو  امریکا سے یورپی یونین کو ایل این جی درآمدات میں 2021 کے مقابلے میں 23.59 ملین ٹن کا اضافہ ہوا ۔ امریکا کے اس رویے پر  جرمنی اور فرانس نے امریکا کو ائینہ دکھایا اور شکوہ بھی  کیا کہ ” کیا دوست ایسا کرتے ہیں؟

 لیکن کیا امریکا واقعی "دوست "ہے ؟  امریکی تاریخ ہمدرد بن کر  قبضہ کرنے  اور  افواہوں کی بنیاد پر معاملات چلانے بگاڑنے کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔

چینی صدر نے جس تاریخ کو روس کے دورے کا آغاز کیا اسی تاریخ کو  عراق پر امریکی حملے کے بیس برس بھی مکمل ہوئے۔  دو دہائیاں ہوگئیں ،یہ اعتراف بھی سامنے آگئے کہ ہاں یہ جان بوجھ کر غلط افواہ سازی اور میڈیا وار کے ذریعے ” مسلط کردہ ” جنگ تھی لیکن کیا آج تک امریکا نے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ؟ یا اس  کے نتیجے میں سامنے آنے والے انسانی المیے سے  کچھ سیکھا ؟  مذاکرات کی میز پر آکر معاملات کو سلجھانا امریکی ” مفادات ” میں ہے ہی نہیں وہ افراتفری پھیلا کر اپنے فائدے کی دکان چمکاتا ہے اور روس یوکرین تنازع میں جلتی پر تیل ڈالنا اس کا تازہ ثبوت ہے ۔

دوسری طرف  چین پرامن مذاکرات ، مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملات کو سلجھانے اور  اول دن سے روس اور یوکرین  تنازع کو مذاکرات کے ذریعے پر امن طور پر حل کرنے کی بات کر رہا ہے ۔ فروری میں چین نے "یوکرین بحران کے سیاسی حل کے لیے چین کا موقف” کے عنوان سے جودستاویز جاری کی، روس نے بھی اس پرمثبت ردِ عمل دیا۔

اس صورتِ حال کے تناظر میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان  کا چین کی جانب سے یوکرین میں جنگ بندی کے ممکنہ مطالبے کی مخالفت کرنا کوئی انوکھی بات نہیں  ۔بقول امریکا  اس سے روس کو "حملے دوبارہ شروع کرنے” کی اجازت مل جائے گی۔ حالانکہ چین تمام فورمز پر پر امن مذاکرات اور افہام و تفہیم کی حمایت کرتا آ رہاہے اور یوکرین کے معاملے پر بھی منصفانہ موقف پرقائم رہتے ہوئے امن مذاکرات کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرنے پر آمادگی کا اظہار کر چکا ہے اور اس میں وہ کس قدر کامیاب ہو سکتا ہے ان صلاحیتوں کا اظہار ایران ، سعودی عرب معاہدے میں کھل کر ہو چکا ہے ۔

 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک اور بڑے ممالک کے طور پر چین اور روس کے درمیان تعلقات اور اثر و رسوخ،  دو طرفہ دائرے سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اب امریکہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے کیا کرے گا۔یہ بات واضح ہے کہ  واشنگٹن اس تنازع کا خاتمہ نہیں دیکھنا چاہتا  اور نہ ہی مستقبل میں ” دشمنوں ” کو ” دوست” بننے کا موقع دینا چاہتاہے اسی لیے وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یوکرین کو فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔

وہ سمجھتا ہے کہ تنازع کو طول دے کر وہ روس کو کمزور کر سکتا ہے، یورپ کو سلامتی کے معاملات میں امریکہ پر مزید انحصار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے اور اپنی بالادستی مزید بڑھا  سکتا ہے ۔ اس کی ان خواہشات کی تکمیل میں خوراک، توانائی اور مالی بحرانوں نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے  لیکن امریکا ابھی بھی روس اور چین کے صدور کی ملاقات میں سے ” کچھ مشکوک” تلاش کرنے کی تگ و دو میں ہے ۔

یوکرین کے مسئلے پر روسی صدر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے  شی جن پھنگ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یوکرین کے معاملے پر مسلسل ایک پرامن اور  استدلالی آواز بلند ہو رہی ہے، زیادہ تر ممالک کشیدگی کم کرنے کی حمایت اورآگ کو ہوا دینے کی مخالفت کرتے ہیں اور تاریخی طور پر بھی دیکھیں تو تنازعات بالآخر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوتے آئے ہیں۔

اسی لیے  چین، یوکرین کے مسئلے کے سیاسی حل کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔پیوٹن نےبھی اہم بین الاقوامی معاملات پر چین کے متوازن اور غیر جانبدارانہ موقف کو سراہا اور  امن مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں چین کے تعمیری کردار کا خیرمقدم کیا ہے.

یہ اہم ترین دورہ ، جسے امن اور دوستی کے دورے سے تعبیر کیا جا رہا ہے دنیا  کے لیے یقیناً ایک اور اچھی خبر کا پیش خیمہ ثابت ہو گا ہاں البتہ دنیا میں ایک حکومت کا اس معاملے پر بل کھانا کہ جس پر تمام دنیا اتفاقِ رائے چاہتی ہے یہ سوال ضرور اٹھاتا ہے کہ ، اس کے لیے "خطرہ” کوئی ایک ملک ہے یا امن کی راہ ہموار کرنے والا ملک  اور اس کے بڑھتے ہوئے دوست اس کی بالادستی کے لیے "خطرہ” بن رہے ہیں  ؟دنیا کے سامنے اب اس سوال کا جواب واضح ہے۔

 

امریکہچینروسیوکرین
Comments (0)
Add Comment