تحریر: سارا افضل
2023، چین کی امن و مساوات پر مشتمل کامیاب سفارتکاری کا روشن سال
چین ہمیشہ سے عالمی امن کا حامی اور بین الاقوامی نظم ونسق کا محافظ رہاہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی مثبت اور تعمیری پالیسیز کے ذریعے چین کا عالمی ترقی میں بھی بڑا حصہ ہے ۔ سال 2023میں دنیا نے دیکھا کہ چین کی سفارتی کوششیں اور اقدامات مختلف ممالک کے درمیان موجود ڈیڈلاک کو ختم کرنے اورتنازعات کےپرامن حل تک پہنچنے میں ایک اہم عنصر ثابت ہوئے ہیں۔
مارچ 2023میں ایک خبر نے دنیا کو چونکا کر رکھ دیا ۔یہ خبر چین کی ثالثی میں دو بہت پرانے ، تاریخی حریفوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے اور اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کرنے کی تھی ۔ یہ معاملہ کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطی میں معاملات کو سلجھانے میں ایک رکاوٹ بن رہا تھا جسے چین نے اپنی معاملہ فہمی ، تدبر اور سب سے بڑھ کر ایک قابلِ اعتبار دوست بن کر حل کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے بھی اس کامیابی پر چین کی کوششوں کا شکریہ اداکیا۔ اس تاریخی مصالحت میں چین کی کامیاب ثالثی دونوں ممالک کی مشرق وسطیٰ سے متعلق چین کی سفارتی پالیسیوں کو تسلیم کرنے اور ان پر اعتمادکرنے کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔
آج جب دنیا یوکرین کے طویل بحران اور اسرائیل–فلسطین کے درمیان جاری تباہ کن جنگ کے نتیجےمیں پیداہونے والے شدید بحران کا سامنا کر رہی ہے ایسے میں چین کی سفارتکاری تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے موقف کی اہمیت اور اس کی حمایت کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔
چین نےاس سال فروری میں "یوکرین بحران کے سیاسی تصفیے پر چین کاموقف”اور پھر نومبرمیں "فلسطین-اسرائیل مسئلے کے حل پرعوامی جمہوریہ چین کا پوزیشن پیپر” جاری کیا۔ دونوں مقالوں میں امن کے لیے مذاکرات کی وکالت کی گئی ہےاوراس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کی بنیاد پر متعلقہ فریقوں کے مفادات پر غورکیاجاناچاہیےاورمذاکرات کےذریعے خطے میں امن جلد از جلد بحال کیا جانا چاہیے۔ چین ہمیشہ سے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےایک مشترکہ گراونڈ تلاش کرنے، محاذآرائی کےبجائے بات چیت کا انتخاب کرنے، جبرکی جگہ مشاورت اور قومی سرحدوں سے بالاترمشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیےپرعزم رہا ہے۔ اس کی مثالیں مشرق وسطیٰ میں علاقائی مفاہمت اور تعاون کے بڑھتے ہوئے رجحان میں دیکھی جاسکتی ہیں جن میں قطربحرین سفارتی تعلقات کی بحالی اور ایران اور سعودی عرب کے تعلقات پر جمی برف کا پگھلنا شامل ہے ۔
چین بڑےممالک اور معیشتوں کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کو بڑھانے پر زور دیتا ہے اور اپنے طرزِ عمل سے چین نے یہ دکھایا ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں ایک بڑے ملک کو کس طرح سے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ اس کی مثال دنیا کے دو بڑے ممالک چین اور امریکہ کے تعلقات ہیں۔ 2023 میں اگرچہ دو بڑی معیشتوں کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات موجود رہے خاص طور پر سال کی پہلی ششماہی میں، تاہم دوسری ششماہی میں متعدد مرتبہ کے تبادلے ثابت کرتے ہیں کہ جیت جیت تعاون سب کے مفاد میں ہے۔خاص طور پرنومبر میں چینی اور امریکہ صدور کی ملاقات،جس میں نہ صرف باہمی اعتماد میں اضافہ اور اختلافات کو دور کرنےکی کامیاب کوشش کی گئی ،بلکہ بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کثیرالجہت تعاون کو فروغ دینے کے اقدامات پر بھی مثبت پیش رفت ہوئی ۔ "دنیا اتنی بڑی ہے کہ دونوں ممالک کو جگہ دےسکتی ہے”اور”ایک ملک کی کامیابی دوسرے ملک کے لیے ایک موقع ہے۔” صدر شی جن پھنگ کے یہ جملے چین کی سفارت کاری میں چینی صدر کے تصورات اور امن و مساوات کے اصول پر مبنی چینی سفارت کاری کو بیان کرتے ہیں ۔
ایک اور مثال چین اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کی ہے۔ 2023میں چین اور یورپی یونین کے تعلقات میں مختلف نشیب و فراز آئے خاص طورپرجب مارچ میں یورپین یونین کی جانب سے ” ڈی رسکنگ” کا تصورپیش کیا گیا جس کے نتیجے میں یورپی کمیشن نے چین سے برقی گاڑیوں کی درآمدات کے بارے میں ایک اینٹی سبسڈی تحقیقات شروع کیں. ان تحقیقات پر چین نے تشویش کااظہار کیا اور یہ اس لیے نہیں تھا کہ یہ اقدام مہلک ہے بلکہ اس لیے بھی کہ” ڈی رسکنگ” ” کا حصول یورپی یونین کی معیشت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ چین، یورپی یونین کو سامان فراہم کرنے والا سب سے بڑا سپلائرہے۔ اعدادوشمار ظاہر چین اوریورپی یونین کے مابین تعاون کی اہمیت کو عیاں کرتے ہیں ۔ چین کی وزارت تجارت کےمطابق 2022 میں چین سے یورپی یونین کو درآمدات کا حجم 684.12 ارب ڈالر رہا، جوسال بہ سال 32 اعشاریہ ایک فیصدکا اضافہ ہے۔ گزشتہ سال کے اختتام تک یورپ میں چین کی براہ راست سرمایہ کاری والی 2,800 سےزائدکمپنیز تھیں، جن میں ڈھائی لاکھ سے زائد غیرملکی ملازمین کام کرتےتھے۔زمینی حقائق کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسے اقدامات سے صرف چین ہی نہیں یورپی یونین کی مارکیٹ اور یہاں کے لوگوں کے روزگار کو بھی بڑا دھچکا لگتا تھا۔ اس صورتِ حال میں، 7 دسمبرکوبیجنگ میں ہونے والے 24 ویں چین-یورپی یونین سر براہ اجلاس نے اختلافات دور کرنے کے لیے مشاورت کرنے ،وسیع تر اتفاق رائے تک پہنچنے اور دونوں فریقوں کے رہنماؤں کے مابین براہ راست بات چیت کے ذریعے سیاسی باہمی اعتماد کو مضبوط کرنےمیں سہولت فراہم کی ۔ یورپی یونین اور چین کے مابین تعاون نے عالمی معیشت کے دوقطبوں کو ایک دوسرے کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بنادیاہے۔ دگر گوں صورتِ حال میں چین اور یورپی یونین کے تعلقات کی مثبت اور تعمیری ترقی کو فروغ دینا چین کی سفارتکاری کی ایک اور اہم کامیابی اور بڑے ممالک کے تعلقات کو ذمہ داری اور تحمل سے سنبھالنے کی چینی خوبی کوظاہرکرتاہے۔
چین کی سفارتکاری کی ایک اور خاصیت انسانیت کےمشترکہ مستقبل پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے کی تجویز ہے۔یہ تصور مل کر کام کرنے کی اہمیت کو اجاگرکرتا ہے اور اس بات پو مائل کرتا ہے کہ تمام ممالک چاہے بڑے ہیں یا چھوٹے انسانیت کی بھلائی کے لیے ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کے لیے تعاون کریں اور ملجل کرکامکریں۔ چینکا تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیایٹو اس تصور کی عملی مثال ہے۔ اس انیشئیٹو سے پالیسی کو آرڈی نیشن، بنیادی ڈھانچے میں بہتری سےروابط کو مضبوط بنانا، بلاروک ٹوک تجارت، مالیاتی انضمام اور شریک ممالک کے درمیان قریبی عوامی تعلقات کو آسان بنایا جا رہا ہے۔
"دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیایٹو کے تحت چیننے 70 سےزائدممالک اورخطوں میں 2 ہزار سےزائد زرعی اور تکنیکی ماہرین بھیجےہیں، اوران میں سے بہت سے ممالک میں ڈیڑھ ہزار سےزیادہ زرعی ٹیکنالوجیز اور فصلیں متعارف کروائی ہیں، جس سے دیہی غربت کو کم کرنے، جدیدزراعت کو فروغ دینے اور ایشیا میں کاشتکاری سے آمدنی بڑھانے میں مدد ملی ہے۔
چین کے ان اقدامات کی تعریف اور چین کی سفارتکاری میں امن و مساوات اور باہمی احترام کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کامیابیوں کا اعتراف بین الاقوامی سطح پربھی کیا گیاہے۔عالمی منظر نامے میں چین کی سفارتکاری کے ان اصولوں کے باعث بین الاقوامی صورتحال میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور چین کا کردار مختلف سطحوں پر بےحدنمایاں ہوگیاہے۔