Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

” گلوبل انفراسٹرکچرانیشئیٹو”،بی آر آئی کی ساکھ خراب کرنے کی ایک ناکام چال

جرمنی میں منعقدہ جی–سیون رہنماؤں کےسالانہ سربراہی اجلاس میں امریکی صدرجوبائیڈن نے "گلوبل انفراسٹرکچرانیشئیٹو" کا دوبارہ آغازکیا

سارہ افضل

                                                                                          تحریر :سارہ افضل

 

” گلوبلانفراسٹرکچرانیشئیٹو”،بی آر آئی کی ساکھ خراب کرنے کی  ایک ناکام چال

جرمنی میں منعقدہ جی–سیون رہنماؤں کےسالانہ سربراہی اجلاس میں امریکی صدرجوبائیڈن نے "گلوبلانفراسٹرکچرانیشئیٹو” کا دوبارہ آغازکیا

مغربی حکام کا دعوی ہے کہ  بی آر آئی میں شامل ہونے والے ممالک "قرض کے جال” میں پھنس سکتے ہیں، چین بارہا اس کی تردید کرتا آیا ہے۔چین کی طرف سے تجویز کردہ،دی بیلٹ اینڈ  روڈ انیشئیٹو ، سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور اکیسویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ پر مشتمل ہے اور اس کا مقصد قدیم شاہراہ ریشم کے راستوں کے ساتھ ساتھ ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے والے تجارتی اور بنیادی انفراسٹرکچر  کے نیٹ ورک کی تعمیر کرنا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ سے متعلق  "قرض کے جال” کا نام نہاد مسئلہ  اور یہ تصور  کہ بیجنگ، اس منصوبے سے وابستہ ممالک کے مقامی لوگوں کوفائدہ پہنچانےکی بجائےاقتصادی اورجیوسٹریٹیجک طور پر اپنے قدم جمانےمیں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، بالکل غلط سوچ  ہے

 

جرمنی میں منعقدہ جی–سیون رہنماؤں کےسالانہ سربراہی اجلاس میں امریکی صدرجوبائیڈن نے "گلوبل انفراسٹرکچرانیشئیٹو” کا دوبارہ آغازکیا۔ دوبارہ اس لیے کہا گیا کیونکہ امریکہ نےایک سال قبل بھی جی سیون سربراہی اجلاس میں ” بلڈ بیک بیٹر ورلڈ ” یا B3Wکی تعمیرکی تجویزپی شکی تھی،لیکن ابھی تک اس کےلیےتمام جی سیون شراکت داروں نےکوئی مالی تعاون نہیں کیا ۔ اب  انہوں نےترقی پذیرممالک میں بنیادی انفراسٹرکچر کی مالیاعانت کے لیے پانچ سالوں میں 600 بلین ڈالر لگانے کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے  ۔ جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ خود اور اس کا کارپوریٹ سیکٹر  200 بلین ڈالرفوری طور پر فراہم کرے  گا،باقی مزید 400 بلین ڈالردو ہزار ستائیس تک جی سیون ممالک کی جانب سے ہوں گے ۔اس انیشئیٹو میں سڑکوں سےلےکردوردرازبندرگاہوں تک ان تمام منصوبوں کے لیےمالی اعانت فراہم کرنا ہے جن پراس وقت چین غالب ہے ۔کچھ دن پہلے ایک امریکی نیوز سائٹ نے بھی اس پروگرام پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ امریکہ کو اپنے سٹرانگ پوائنٹ،”ہیومن ریسورس "پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے  اور دنیا بھر سے قابل لوگوں کو تعلیم کے لیے اپنے ہاں بلانے پر خرچ کرنا چاہیے تاکہ ساری دنیا میں ہمارے دوست بنیں،تاہم  ان تجاویز پر کان نہیں دھرے گئے اور امریکہ نے مقابلے کا ایک ماحول بنا کر ایک بڑی ” مجوزہ” سرمایہ کاری کے ساتھ  ” مسابقتی میدان”  تیار کرنے کی کوشش کی ہے ۔

چینیوزارتخارجہنےبھی اس پروگرام پرتنقید کرتےہوئےکہا ہےکہ دنیا کی ترقی کےلیےہرکوشش کوسراہناچاہیےلیکن امریکہ اپنا یہ پروگرام،بی آرآئی کےمقابلےمیں چین کی مخالفت کےلیےلارہاہےتاہم اسےاس کےمقاصد حاصل نہیں ہوںگے ۔چین کا کہنا ہے کہ وہ عالمی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے تمام تر اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے لیکن بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹوکی ساکھ کو خراب کرنے  کی کوششوں کی ہر سطح پر مخالفت کرتا ہے۔چین کا ماننا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و بہتری کےلیے اختیار کردہ  مختلف اقدامات ایک دوسرے کی جگہ نہیں لیں گے، لیکن کسی بھی  جانب سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے نام پر "جیو پولیٹیکل سکورنگ  ” یا بی آر آئی کی ساکھ کو خراب کرنا ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے ۔

مغربی حکام کا دعوی ہے کہ  بی آر آئی میں شامل ہونے والے ممالک "قرض کے جال” میں پھنس سکتے ہیں، چین بارہا اس کی تردید کرتا آیا ہے۔چین کی طرف سے تجویز کردہ،دی بیلٹ اینڈ  روڈ انیشئیٹو ، سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور اکیسویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ پر مشتمل ہے اور اس کا مقصد قدیم شاہراہ ریشم کے راستوں کے ساتھ ساتھ ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے والے تجارتی اور بنیادی انفراسٹرکچر  کے نیٹ ورک کی تعمیر کرنا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ سے متعلق  "قرض کے جال” کا نام نہاد مسئلہ  اور یہ تصور  کہ بیجنگ، اس منصوبے سے وابستہ ممالک کے مقامی لوگوں کوفائدہ پہنچانےکی بجائےاقتصادی اورجیوسٹریٹیجک طور پر اپنے قدم جمانےمیں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، بالکل غلط سوچ  ہے ۔اپنےآغازسےلےکرابتک نوسال سے،بی آرآئی نےوسیع مشاورت اور مشترکہ شراکت وفوائد کےاصول پرعمل کیا ہےاور اس سے شراکت دارممالک اوران کےعوام عملی طور پر مستفید ہوئےہیں۔

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بی آرآئی فریم ورک کےتحت ٹرانسپورٹیشن کےبنیادی ڈھانچےکےتمام منصوبوں کومکمل کیا جائے تو  2015 سے 2030 تک عالمی سطح پر 7.6 ملین لوگوں کو انتہائی غربت اور 32 ملین افراد کو اوسطحد کی غربت سے باہر نکالنے میں مدد ملتی ہے اور اسسے 2030 تک سالانہ 1.6 ٹریلین ڈالرکافائدہ متوقع ہے۔ بی آرآئی سےحاصل ہونےوالےنوے فیصد فوائد شراکت دارممالک کےساتھ ساجھےجائیں گےاوران سےکم آمدنی والےممالک اورمتوسط آمدن والی معیشتوں کوزیادہ فائدہ ہوگا۔

حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں تو "قرض کے جال” کا حقیقی خالق تو خود امریکہ ہے، توسیعی مالیاتی پالیسیز،سست نگرانی کےساتھ مالیاخت ت اورغیرارادی طورپرشارٹ سیلنگ جیسے امریکی طرز عمل نےترقی پذیرممالک کوقرضوں کےبوجھ تلےدبا دیا ہے ۔عالمی اقتصادی و سیاسی ماہرین کی رائے میں ، جی سیون ممالک کےرہنماانفراسٹرکچر کے بہت مہنگےاوروقت طلب منصوبوں میں مصروف ہوکرموجودہ اقتصادی ماحول کےخطرات کونظراندازکررہےہیں،جبکہ وہ جن کی مددکرنےکادعویٰ کرتےہیں انہی ترقی پذیرممالک سےسخت مطالبات بھی کررہےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ شراکت داری جی سیون ممالک کےلیےایک ڈھانچہ بھی فراہم کرے گی کہ وہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کواپنےکوئلےکے پلانٹس کوبند کرنےکےلیےنقد رقم فراہم کرنےکی خاطر اپنےوسائل کویک جا کریں۔ ہندوستان،انڈونیشیا،ویتنام اورسینی گال میں اس حوالے سے بات چیت جاری ہے ۔بائیڈن انتظامیہ عالمی سطح پرخوراک اورتوانائی کی قلت کےبڑھتےہوئےسنگین خطرات کےدرمیانان ممالک سےاپنےکوئلےکےپلانٹ بندکرنےکوکہہ رہی ہےجسسے تمام ترقی پذیرممالک سب سےزیادہ متاثرہوںگے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس انیشئیٹو کے لیےجن 600 بلین ڈالرکا وعدہ کیاگیا ہےاسے انسانی حقوق کے فوری حل طلب مسائل پر خرچ نہیں کیا جا سکتا ہے ؟ جی سیون کےرکن ممالک،مہنگائی کےشدید دباؤاورسپلائی چین میں شدید رکاوٹوں سےنبردآزما ہیں۔ دنیا میں بلکہ خود جی سیون ممالک میں ہی  عارضی خیموں میں رہنےوالے مہاجرین ہیں ، بینچزاورعوامی پارکس میں سونےوالےلوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے ، ان سب  کے لیے رہائش، خوراک  اورطبی سہولیات فراہم کرنا اشد ضروری ہے اوریہ ان کا بنیادی حق بھی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پارٹنر شپ فار گلوبلانفراسٹرکچر، نئی سڑکوں یا پلوں کی تعمیرکوبھی سر فہرست نہیں رکھتا۔ میڈیا رپورٹس کےمطابق،بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ کم اورمتوسط آمدنی والےممالک میں ایسے منصوبوں کوتیزی سے جاری کرےگا جوعالمی صحت،صنفی مساوات اورڈیجیٹلاپگریڈنگ کےساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں سےنمٹنےمیں مدد فراہم کریں گے۔

بظاہر تو ایسالگتاہےکہ واشنگٹن بجائےاس کےکہ عالمی سرمایہ کاروں کےلیےزیادہ سےزیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے گلوبلانفراسٹرکچر انیشئیٹو  کا استعمال کرے وہ اسے ترقی پذیرممالک کی سیاسی،نظریاتی اورخارجہ پالیسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔مگر اس کا یہ "خواب” اس وقت چکنا چور ہو جائے گا جب جی سیون رہنماؤں کےلیےوصول کنندہ ممالک کوہارڈ کرنسی منتقل کرنےکاوقت آئےگا۔موجودہ عالمی صورتِ حال کو دیکھا جائے تو عالمی معیشت مشکل ترین دور میں ہے ایسے میں یہ انیشئیٹو موجودہ عالمی رجحانات میں بہتری نہیں لائے گا۔ قلیل مدتی آؤٹ لک میں مزید منصوبوں کےلیے فوری طور پر 600 بلین ڈالر کی ضرورت ہے،جیسےکہ توانائی کی صلاحیت کوبڑھانااورزرعی پیداوارمیں اضافہ کرنا۔یہ منصوبہ اتنامہنگاہےکہ مغربی طاقتیں نہ تو ابھی  اور نہ ہی آنےوالےچندسالوں میں اس کی لاگت کا بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اسکےعلاوہ،چین پہلےہی عملی طور پر یہ ثابت کرچکا ہےکہ وہ ایسے بڑے انیشئیٹو کو بے حد منظم منصوبہ بندی کے تحت کامیابی سےآگے بڑھا نے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور اسی لیے بی آر آئی ترقی پذیرممالک کےلیےاقتصادی ترقی کاایک بوسٹربن گیا ہے۔ جی سیون ممالک یہ سوچ کرکہ وہ  600 بلین ڈالرکےبے بنیادپروجیکٹ کےاعلان کےساتھ چین کوپیچھےچھوڑسکتےہیں،محض ایک بچگانہ اقدام کر رہے ہیں جس کی کامیابی کے امکانات ان کے سابقہ اقدامات کی طرح کچھ خاص روشن نہیں ہیں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More