نااہلی کی مدت کیس کا فیصلہ،سپریم کورٹ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی ختم کر دی
سپریم کورٹ کے پاس آئین کے آرٹیکل 184 (3) میں کسی کی نااہلی کا اختیار نہیں، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے خاتمے کا فیصلہ 6-1 کے تناسب سے سنایا
آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے کیس کا فیصلہ سنا نے ہوئے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی ختم کر دی جس کے تحت محمدنوازشریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نا اہلی بھی ختم ہوگئی،سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے خاتمے کا فیصلہ 6-1 کے تناسب سے سنایا،جسٹس یحییٰ اٰفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا جو براہ راست نشر کیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہوگی اور آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی کی مدت 5 سال ہوگی۔
سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے پاس آئین کے آرٹیکل 184 (3) میں کسی کی نااہلی کا اختیار نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد ضروری تھا کہ فیصلہ فوری سنایا جائے جبکہ تمام ججز، وکلا اور عدالتی معاونین کا مشکور ہوں۔سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 1-6 کے تناسب سے فیصلہ سنایا اور بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل واپس لینے پر خارج کردی۔فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سربراہ جہانگیر ترین 8 فروری کا الیکشن لڑ سکیں گے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ برقرار رہنا چاہیے، سمیع اللہ بلوچ کیس کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ قانونی ہے اور نااہلی تب تک برقرار رہے گی جب ڈکلیئریشن موجود رہے گی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کا 7 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کو آئین سے الگ کر کے نہیں پڑھا جا سکتا، الیکشن ایکٹ کا قانون فیلڈ میں ہے اور الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال ہے جسے پرکھنے کی ضرورت نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، عدالتی ڈکلیئریشن کے ذریعے 62 (ون) (ایف) کی تشریح اس کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، جبکہ عدالتی ڈکلیئریشن دینے کے حوالے سے کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔واضح رہے کہ 5 جنوری بروز جمعہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مختصر فیصلہ جلد سنائیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔
کیس کی آخری سماعت میں جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان، اٹارنی جنرل اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دئیے تھے۔سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ خاکوانی کیس میں سات رکنی بینچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی بینچ تھا، سات رکنی بینچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بینچ دیکھے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بعد میں پانچ رکنی بینچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں اپنا فیصلہ کیسے دیا؟ یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا، انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔قبل ازیں 11 دسمبر کو میر بادشاہ خان قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کی اگلی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ نااہلی 62 ون ایف کی بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہوجائیں گے۔قانون دانوں کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت نہیں لکھی لیکن ماضی میں سپریم کورٹ نے تشریح کرکے اسے تاحیات نااہلی سے تعبیر کیا تھا۔