فلسطین اسرائیل تنازعہ کے معاشی اثرات پاکستان سمیت پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں، ممتاز زہرہ بلوچ
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ مے کہا ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے معاشی اثرات پاکستان سمیت پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں،
پالیسی ادارہ برائے پائیدارترقی کے زیر اہتمام سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کے دوران اظہارخیال کرتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زاہرہ بلوچ نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ایک ایسا موثر فورم ہے جس پر عالمی ،وفاقی ، صوبائی اورمقامی ادارے مل کر ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
اس فورم کا مقصد معاشی سفارتکاری کے ذریعے ملک کے قومی مفاد کو محفوظ بنانا ہے۔انہوںنے مذید کہا کہ وزارت خارجہ سفارتکاروں کیلئے معاشی سفارتکاری پر تربیت فراہم کر رہی ہے ۔انہوں نے مذید کیا کہ خارجہ پالیسی کا اہم نقطہ باہمی احترام کے ساتھ شراکت داری بنانا اور پاکستان کے عالمی سطح پر مفادات کا تحفظ کرنا اور اسکا بہتر خاکہ پیش کرنا ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بیوروکریٹک طرز عمل کے بجائے معاشی سفارتکاری پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے سابق مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں معیشت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، طب جیسے شعبوں کو ترقی دینے کیلئے کوئی صلاحیت موجود نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں تیاری نہ کرنے والی اقوام مذید پسماندگی میں جا رہی ہیں جبکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے معاشی اثرات پاکستان سمیت پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں ۔پاکستان کو ان اثرات سے محفو ظ رکھنے کیلئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس موقع پر سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف نے کہا کہ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے پیش نظر وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کو مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنا چاہئے۔
ایس ڈی پی آئی بورڈ آف گورنر کے سربراہ ایمبیسڈر شفقت کاکا خیل نے کہا کہ سفارتی اسلوب میں موسمیاتی تبدیلی کو بھی ترجیح دی جائے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماوں پر مشتمل ماہرین کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکتو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ دنیا کے بدلتے ہوئے معاشی حالات کے تناظر میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اپنے معاشی پروگرام میں واضح اور موثر ایجنڈے کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ عوام سیاسی جماعتوں کی معاشی حکمت عملیوں سے آگاہ ہو کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔
کانفرنس کے دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے انسداد تمباکو نوشی میں بھاری ٹیکسیشن اور سخت قوانین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔تمباکو نوشی میں کمی کر کے سماجی معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔کم آمدن والے ممالک میں تمباکو مصنوعات کے استعمال سے 8 کروڑ جبکہ متوسط آمدن والے ممالک میں ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔
اس موقع پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد اشفاق نے کہا کہ پاکستان کا شمار دس بڑے تمباکو سازوں جبکہ 46 ہزار ایکٹر اراضی خیبر پختونخوا میں تمباکو کیلئے زیر استعمال ہے۔اس دوران سابق وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر سید کلیم امام نے کہا کہ تمباکو مصنوعات کے فروغ میں کمی کیلئے ضروری ہے کہ غیر قانونی ترسیل کو روکا جائے اور قیمت میں مذید اضافہ کیا جائے۔
کانفرنس کے اگلے سیشن میںسابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ملک شدید افراط زر بیروزگاری اور افراتفریح کا شکار اور دیوالیہ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا تھا ان معاشی مسائل کے پیش نظر عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا گزشتہ دو دہائیوں سے حکمرانی میں خامیاں دیکھ رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہماری حکمرانی ہی ٹھیک نہیں باقی شعبوں میں کیسے اصلاحات کریں ۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے ہمارے اداروں میں موجود خامیوں کی مسلسل نشاندہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مذید کہا کہ پاکستان کے انداز حکمرانی میں اصلاح صرف قانون سازی سے ہی ممکن ہے۔ اس دوران سابق وزیر اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹرمصدق ملک نے کہا کہ کالا باغ ڈیم سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آنے والی حکومت کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ زرعی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کر کے پیداواری لاگت کو کم کرے اسی طرح ملک میں پائیدار معاشی ترقی ممکن ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حید ر نے کہا کہ معیشت میں اصلاح ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہو گی۔وزیراعظم کی سابق مشیر شیزا فاطمہ خواجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سازی اور اصلاحاتی ایجنڈا میں نوجوانوں کی شرکت کو یقینی بنا یا جائے۔۔