صحافی ارشد شریف کی فیملی کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے ازخود نوٹس پر اعتراضات اٹھا دیئے
اسلام آباد( رؤف بزمی) سینئر صحافی ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور کینیا کے درمیان باہمی قانونی تعاون کا معاہدہ طے نہ ہونے کے سبب تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں۔
وفاقی حکومت نے معاہدے کیلئے کینین حکومت کو لکھ دیا ہے۔ معاہدہ طے ہونے کے بعد ہی معاملہ کی تحقیقات کیلئے قائم خصوصی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو شواہد تک رسائی دستیاب ہو گی،معاہدہ پر پیش رفت آئندہ دس دن ہو گی۔جمعہ کو اذ خود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر شہید ارشد شریف کی والدہ کے کونسل شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے عدالت عظمی کی طرف سے معاملہ پر لئے جانے والے از خود نوٹس کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ یہ معاملہ جسٹس فار پیس کے پاس جانا چاہیئے تھا اس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے سوموٹو سانحہ کےساڑھے پانچ بعد فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آنے پر کیا،
فیکٹ فائبڈنگ رپورٹ میں کچھ پہلو تھے جن کی تحقیقات ضروری تھیں،عدالتی کارروائی شروع ہونے پر ہی مقدمہ درج ہوا،جے آئی ٹی کو حکومت فنڈز فراہم نہیں کر رہی تھی،سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تو فنڈز دلوائے اور وہ بیرون ملک گئی، ابھی تک بتایا جا رہا ہے کہ ارشد شریف قتل کیس کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی،بیرون ملک سے کوئی تعاون نہیں مل رہا،ہمارے مطالعے کے مطابق پہلے دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہو گا پھر وہ آپ سے تعاون کریں گے،صحافیوں کا عدالت بہت احترام کرتی ہے،صحافی ہمیں کچھ بھی کہیں کبھی توہین عدالت کی کارروئی نہیں کی،صحافی کو قتل کر دیا گیا جو دوسروں کیلئے سبق ہو سکتا ہے،ارشد شریف صحافی اور اس ملک کا شہری تھا،
صحافیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالت نے سوموٹو لیا، شہید کی والدہ کے کونسل نے درست کہا کہ ہم نے تفتیش نہیں کر سکتے،لیکن اگر ہم نے جوڈیشل کمیشن بنا دیا تو پھر سب کو طلب بھی کر سکیں گے،اس وقت غلط خبروں،الزامات اور پراپیگنڈہ کی بھر مار ہے،آپ حیران ہو جاتے ہیں کہ جو ارشد شریف کو سپورٹ اور تحفظ دے رہے تھے ان پر بھی الزامات ہیں،کچھ اور لوگوں پر بھی الزامات ہیں،ہم شفافیت چاہتے ہیں،اس وقت انتشار اور تقسیم کی کیفیت ہے،شفافیت ہی امن قائم کرسکتی ہے،اس واقعے نے صحافیوں میں دہشت پھیلا رکھی ہے،ہمیں بھی بطور شہری تشویش ہے،ہمیں ہر جگہ رسائی نہیں ہے جبکہ جے آئی ٹی کو رسائی ہے،ہم چاہتے ہیں شفاف اور جلد تحقیقات ہوں،اور یہ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک رکاوٹیں ختم نہ ہوں، عدالت کسی کو تحفظ دینا چاہتی ہے نہ کسی کو مجرم قرار دینا مقصد ہے،نہ ہی عدالت نے سوموٹو کارروئی سے کوئی فائدہ اٹھانا ہے،کوئی دلچسپی نہیں لے گا تو کارروئی مزید تاخیر کا شکار ہوگی،ارشد شریف کی والدہ نے درخواست کی تھی اور وزیراعظم نے بھی جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے خط لکھا تھا،ان معاملات میں بہت سی چیزیں خفیہ ہوتی ہیں،ہم نے جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا نہ ہی جے آئی ٹی کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا ہم درست دروازے پر دستک دے رہے ہیں؟کیا حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا معاہدہ کیا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کی طرف سے اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے کینین حکومت کو معاہدے کے لیئے لکھ دیا ہے۔جمعہ کو عدالت عظمی میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔
سماعت کے آغاز میں شہید ارشد شریف کی والدہ کے کونسل شوکت عزیز صدیقی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ازخودنوٹس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا کہ عدالت تفتیش کو سپروائزر نہیں کر سکتی،سپریم کورٹ کا تحقیقات کی نگرانی کرنا خلاف آئین ہے،ارشد شریف کی والدہ کو جسٹس آف پیس سے رجوع کرنے کا کہنا چاہیے تھا.
جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقع پر شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ کے کونسل کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں تو ازخودنوٹس ختم کر دیتے ہیں،جسٹس مظاہر نقوی نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت نے سوموٹو ٹھیک نہیں لیا تواتنا عرصہ کوئی قانونی کارروئی کیوں نہیں ہوئی؟تفتیش کی نگرانی کرنا عدالت کا اختیار ہے،جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ شہید کی والدہ کو لگتا ہے کہ ہم پانچ ججز انکی مدد نہیں کر سکتے؟ سیدھا سیدھا کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کوئی کارروئی ہی نہ کرے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ صحافی برادری کے خدشات اور تحفظ کیلئے ازخودنوٹس لیا گیا تھا،عدالت سوموٹو میں کسی کو سزا دینے نہیں بیٹھی،جے آئی ٹی کے کام میں سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کر رہا،عدالت صرف حکومتی اداروں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
شوکت عزیز صدیقی نے بتایا کہ ایس ایچ او تھانہ رمنا شہید کی والدہ کی درخواست پر مقدمہ درج نہیں کر رہا تھا،ارشد شریف کی والدہ روز جیتی اور مرتی ہیں انکی مرضی کا مقدمہ درج نہیں ہو رہا،چاہتے ہیں جے آئی ٹی کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کے باہمی قانونی تعاون کیلئے لکھنے کے بعد معاہدہ ہونے میں دس دن لگ جائیں گے،چیف جسٹس آف پاکستان نے اس موقع پر کہا کہ سماعت تین ہفتے کے لیے ملتوی کر دیتے ہیں اس دوران باہمی قانونی تعاون کا معاہدہ ہو جائے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔