سائفر کیس: سپریم کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمنات منطور کر لی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی اورسابق وزیر اعظم عمران خان اور وائس چیئرمین اورسابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے اطمیان کے مطابق دس، دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔
جبکہ قائمقام چیف جسٹس سپریم کورٹ سردار طارق مسعودنے قراردیا ہے کہ ہمارے پاس ہمارے پاس صرف درخواست ضمانت تھی اس پر ہم نے فیصلہ کردیا ہے، کیس کے ٹرائل کے حوالہ سے معاملہ ہمارے سامنے نہیں تھا،، اعظم خان جو کہہ رہا ہے وہ دوماہ غائب ہونے کے بعد کہہ رہا ہے، جو میٹھا ، میٹھا ہے وہ رکھ لیں اورجو کھٹا، کھٹا ہے وہ پھینک دیں۔۔ جبکہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ عدالت لوگوں کے بنیادی انسانی حقو ق کی محافظ ہے، ابھی سزانہیں ہوئی ہم انہیںمعصوم ہی تصورکریں گے۔ قائمقام چیف جسٹس سپریم کورٹ سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔عمران خان کی جانب سے بیرسٹرسلمان صفدر پیش ہوئے جبکہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سید محمد علی بخاری ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ جبکہ ایف آئی کی جانب سے پراسیکیوٹر راجہ رضوان احمد عباسی، شاہ خاور ایڈووکیٹ اوردیگر پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر سردار طارق مسعود نے سلمان صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ضمانت پر نوٹس جاری کردیتے ہیں ،جلدی ہے آپ کو۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھاکہ عمران خان کا فرد جرم عائد ہونے کے خلاف کیس غیر مئوثر ہو گیا ہے۔ اس پر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ دوبارہ چارج فریم ہو گیا ہے۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ہربندے کا حق ہے کہ اس کو اسپیڈی ٹرائل ملے، اسلا م آباد ہائی کورٹ پہلا ساراکیس ہی ختم کردیا ، اب اگر ہم اس درخواست کو منظور بھی کرلیں توکیا ہوگا، اب نیا جو کچھ ہوا ہے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں دوبارہ درخواست دائر کریں۔ فرد جرم عائد ہونے کے خلاف عمران خان کی جانب سے دائر درخواست پرسینئر وکیل حامد خان کی جانب سے لاہور سے ویڈیو لنک پر دلائل دیئے گئے ۔
سردار طارق مسعود کا حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا یہ کیس غیر مئوثر نہیں ہو گیا، پرانی کاروائی کو ختم کردیا تھا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں آج دوبارہ سماعت کرلیں اور اس کا انتظار کرلیں اورالتوادے دیں۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ پرانے حکم کواگرہم کالعدم بھی قراردیتے ہیں توپھر کیاہوگا، موجودہ کاروائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کس آرڈر کے تحت فرد جرم عائد ہوئی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29اگست2023تک کی تمام کاروائی کالعدم قراردے دی تھی۔
جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ اسی میں فرد جرم عائد ہونے کی کاروائی بھی شا مل ہے اس کے بعد دوبارہ ہائی کورٹ جائیں، پوری دنیا رورہی ہے کہ ہمارے کیس نہیں ہورہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ سماعت نہ کریں۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اپنی درخواست واپس لے لیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جس آرڈر کو چیلنج کیا تھا اس کو ہائی کورٹ نے کالعدم قراردے دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر اس درخواست کو زیر التوارکھیں گے توپھر ہائی کورٹ کے سامنے کاروائی سب جوڈس ہو گی۔
سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ جانا ہو گا، جس آرڈر سے آپ کے موئکل کی درخواست منظور ہوئی وہ 21نومبر 2023کو دیا گیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ اس آرڈر کو اسکپ کر کے ماضی میںجایا جائے تواس کے لئے ہائی کورٹ کے حکم کو بھی کالعدم کرنا پڑے گا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ 13دسمبر 2023کو دوبارہ فرد جرم عائد ہو گئی ہے جس کو چیلنج نہیں کیا گیا ۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 23اکتوبر 2023کا حکم ہائی کورٹ نے کالعدم قراردے دیا تھا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ میں شارڈ ایڈجرنمنٹ مانگ رہا ہوں کہ آج ہائی کورٹ میں کیا ہوتا ہے۔ جسٹس سردارطارق مسعود کا کہنا تھاکہ آج اگر ہائی کورٹ بری بھی کردے تواس کا درخواست پر فرق نہیں پڑے گا، ہم اس پر کیسے مزید سماعت کرسکتے ہیں،وہ آرڈر غیر مئوثر ہوگیا، ایسی چیزکوزیر التوارکھنا چاہیئے جو پہلے ہی ختم ہو چکی ہے ، سال بعد بھی اس کیس کا ہم کیا فیصلہ کریں گے۔
عدالت نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے 23اکتوبر2023کو فرد جرم عائد کی تھی ، کیس کے زیر التوء ہونے کے دوران ہائی کورٹ نے 20نومبر2023کو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا اور ٹرائل کورٹ کی تمام کاروائی کالعدم قراردے دی گئی، یہ درخواست غیر مئوثر ہو گئی ہے۔عدالت نے درخواست پر مزید سماعت ملتوی کردی۔ جبکہ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔
عدالت عظمی نے شاہ محمود کی درخواست پر حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کیا جبکہ سرکاری وکیل کو شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر بھی دلائل دینے کی ہدایت کی۔سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت پر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی آر 17 ماہ کی تاخیر سے درج ہوئی، سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے ایف آئی آر درج کرائی، پہلے موکل کیخلاف فارن فنڈنگ کیس بنانے کی کوشش ناکام ہوئی، توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی ہوئی ، اسی شام سائفر میں گرفتاری ڈال دی۔سردار طارق مسعود کا سلمان صدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسٹے آپ نے لیاتھا وہ بیٹھے رہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ انکوائری کب شروع ہوئی تھی۔
اس پر کمرہ عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس کا کہنا تھا کہ 5اکتوبر2022کو انکوائری شروع ہوئی تھی، حکم امتنا ع ہوااس کے بعد وہ ختم ہو ااور کے بعد ملزمان نے انکوائری جوائن کی۔سلمان صفدر کا کہنا تھاکہ 7مارچ 2022کو سائفر آیا تھا، چار ملزمان ایف آئی آر میں شامل ہیں ، دوٹرائل کا سمان کررہے ہیں، اسد عمر کی ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوگئی ہے جبکہ سابق پرنسپل سیکرٹر محمد اعظم خان کے حوالہ سے کہا گیا کہ ان کی گرفتاری درکار نہیں، اعظم خان پر سائفر کے منٹس کو مینی پولیٹ کرنے کاالزام ہے، ایف آئی اے نے جلد بازی میں ایف آئی آردرج کرکے تحقیقات کیں۔
سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ مین بندے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کی ضمانت نہیں بنتی۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی گواہ نہیں اوراعظم خان خود اس کا گواہ بنتا ہے اور161کا بیان ریکارڈ کرواتاہے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی طور پر انتقام کا نشانہ بنانے کا کیس ہے، سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے انکوائری کی منظوری دی۔ سردار طارق مسعود کا سلمان صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فوجدار ی کیس کے حوالہ سے بات کریں اور سیاسی باتیں نہ کریں۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم اورسابق وزیر خارجہ کے خلاف سائفر کیس چلایا جارہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سائفر انتہائی حساس اور کوڈڈ دستاویز ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ایک سائفر آتا ہے ایک خفیہ کوڈ سٹم ہے دنیا میں مختلف کوڈنگ سسٹم ہیں،ہم کون سااستعمال کرتے ہیں، ہم اپیل نہیں سن رہے اور کوئی آبزرویشن دے کر ٹرائل متاثر نہیں کرنا چاہتے، سائفر خفیہ کوڈ ہے یا دستاویز ہے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ خفیہ کوڈ اورپاسورڈ میرے پاس کبھی آیا ہی نہیں۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھاکہ سائفر کوڈڈ دستاویز ہے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہیں سیکرٹ طریقہ نہیں بتایا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سفیر ملاقاتیں کر کے اپنی رائے کوڈڈشکل میں پاکستان بھجواتے ہیں، سیکرٹری خارجہ حکومت کو دیتے ہیں، یہ یقینا حساس دستاویز ہے، دفتر خارجہ کسی کو یہ دستاویز نہیں دے سکتا، وزیر اعظم کو بھی نہیں دے سکتا۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ امریکہ میں متعین پاکستان سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے ہائی ارجنٹ اینڈ امپورٹنٹ کے طور پر سائفر بھجوایا۔ سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سائفر کس کے ٹیبل کو ہٹ کرتاہے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ، صدر ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے پاس جائے گا۔ سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس سائفر کی انفارمیشن تو پہنچی ہے اور وہ کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتے۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ سائفر آن ایئر توکیا گیا ۔
جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عوام کو کمیونیکیٹ کیا گیا، کیا27تاریخ والا پہلا جلسہ تھا جس میں سائفر کے حوالہ سے بتایا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سائفر سیفر نے سیکرٹری خارجہ کو کوڈڈ فارم میں بھیجا ہے یہ صرف فارن آفس میں ہوتا ہے اگر وہاں سے باہر گیا ہے توانہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ 125دنوں سے شاہ محمود قریشی جیل میں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عوام کے سامنے اس کے بارے میں بات نہیں کی جاسکتی، بہتر ہو گا کہ ہم کوئی آبزرویشن نہ دیں یہ ٹرائل کو متاثر کرسکتی ہے۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کو اس حوالہ سے پتا تھا اس لئے اس نے عمران خان سے کہا تم جانو تمہارا کام جانے، وہ بچ گیا اور عمران خان کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کہہ رہی ہے کہ عوام کو سماعت میں نہ آنے دیا جائے اوران کیمرہ سماعت ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ٹرائل زیر التوا ہے اور تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں، ان کو حراست میں رکھنا کیوں ضروری ہے۔ سردارطارق مسعود کا کہنا تھا کہ اعظم خان کا بیان پڑھ دیں، سازش کہاں پر کی ہے۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر 15اگست2023کی ہے اور 16اگست کو اعظم کان نے بیان دیا، اعظم خان وعدہ معاف گواہ نہیں بنے ان کا اسٹیٹ پتا نہیں کیا ہے اوروہ 161کا بیان دیتا ہے اور پھر مجسٹریٹ کے سامنے 164کابیان ریکارڈ کرواتاہے۔سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سائفر آج بھی دفتر خارجہ میں ہے اور ٹرانسلیشن میسج عمراں خان کو گیا، دومرتبہ ڈی مارچ کیا گیا یا وہ غلط ہیں یا جو 127دن سے جیل میں بند ہیں وہ غلط ہیں۔ سردارطارق مسعود کاسلمان صفدر سے مکالمہ کر تے ہوئے کہنا تھا کہ ضمانت کی گرائونڈ بتائیں، پہلے دن بھی کہا تھا کہ سیاسی لحاظ سے کیس نہ لڑیں۔
اس موقع پر11بجکر20 منٹ پر سماعت کے دوران وفقہ کردیا گیا اورپھردوبارہ ججز12بجکر10منٹ پر کمرہ عدالت میں واپس آئے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھاکہ 11اپریل2022کو عمران خان نے وزارت عظمیٰ چھوڑ دی تھی، 30ستمبر2022کو169روز بعد بتایا گیا کہ وزیر اکی سائفر کاپی لاپتہ ہے، عمران خان سے کوئی ریکوری نہیں ہوئی، درخواست گزارکی عمر 71سال ہے وہ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، میںتوقع کرتا ہوں کہ سمجھدارکامظاہر ہ کیاجائے گا، یہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا کیس ہے،عمران خان کی اسلام آباد میں درج 40فوجداری کیسز میں درخواست ضمانت منظور ہوگئی ہے، یہ تاریخ میں سب سے بڑا سیاسیانتقام ہے،
عمران خان کو ایک کے بعد ایک کیس میں پھنسایا گیاہے، ہمارے کیس لاہور اوراسلام آباد میں سنے گئے تاہم آج تک فیصلہ نہیںآیا، عمران خان ریاست کے دشمن نہیں، یا امریکہ کو کیا جانے والا ڈی مارچ غلط ہے یا یہ کیس غلط ہے۔ اس دوران نیاز اللہ نیازی نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میں کچھ کیسز کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔اس پر سردار طارق مسعود نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ضمانت کے مرحلہ پر کیسوں کے کون حوالے دیتا ہے۔ جبکہ شاہ محمود قریشی کے وکیل سید محمد علی بخاری کا کہنا تھا کہ میرے مئوکل کو 19اگست کو گرفتار کیا گیا اور 10روزہ ریمانڈ پر رکھا گیا اور کوئی ریکوری نہیں ہوئی۔
جبکہ اپنے دلائل میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ دو دسمبر کو ٹرائل کورٹ نے جیل میں دوبارہ ٹرائل کا آغاز کیا، پہلی کاروائی ہائی کورٹ نے کالعدم قراردے دی تھی۔ 13دسمبر کو پانچ الزامات کے تحت نئی فردجرم عائد ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ بتائیں اوریجنل سائفر کی کتنی کاپیاں سفیر بھجواتاہے، کن رولز کے تحت کاپیاں تقسیم کی جاتی ہیں اورواپس لی جاتی ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ کیا یہ رولز بھی سیکرٹ ہیں، یہ رولز کس نے بنائے ہیں، رولز توسیکرٹ نہیں ہوسکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جس طرح ٹرائل چلا رہے ہیں اورایف آئی آرکی ہے آپ توخود اپنے رولز کی خلاف کررہے ہیں۔
سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ سائفر پہلے انکرپٹ کیا جاتا ہے ۔ راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ جو پلین ٹرانسکرپٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے اسے سائفر کہتے ہیں۔ سردارطارق مسعود کا کہنا تھا کہ سائفر کا مطلب کوڈڈہے، جو ڈی کوڈ کر کے کاپیاں بنائیں وہ سائفر نہیں ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن سے چلے انکرپٹ ہو گا پھر ڈی کوڈہو گا یہ ساراکیس سائفر کا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا سیکرٹری خارجہ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ اس کو کسی کے سامنے ڈسکلوز نہیں کرنا، حکومتیں ہٹ جاتی ہیں تو پھر وہ وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں۔ سردارطارق مسعود کاکہنا تھاکہ سائفر اوریجنل کس کے نام ہوتا ہے، یہ ساری کہانی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا تحقیقاتی افسر نے یہ چیز کسی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے سوال کیاکہ کیا ان ہدایات کاذکر انکوائری رپورٹ میں ہے، اگر انکوائری رپورٹ نہیںلائے توآئے کیوںہیں۔
سردارطارق مسعود نے سوال کیا کس نے انکوائری کی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کتنا عرصہ وزیر اعظم سائفر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، کیا اس کو واپس کرنا ہے۔ اس پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ واپس کرنا ہے ، وقت مقرر نہیں ، پانچ کاپیاں بنائی تھیں جن میں چار واپس آگئیں اوروہ ضائع کردی گئیں جبکہ عمران خان کے پاس موجود کاپی واپس نہیںآئی اورانہوں نے خو دانٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کی کاپی گم ہو گئی ہے۔ سردار طارق مسعود نے سوال کیاکہ کیا اعظم خان کا 164کابیان حلف پر لکھا ہے یا بغیر حلف کے۔ اس پر راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ حلف پر لکھا۔سردارطارق مسعود کا کہنا تھاکہ پہلابیان اس وقت ہوا جب وہ ملزم ،گواہ کا بیان حلف پر ہوتا ہے، اعظم خان اغوا ہوا اوروہ دوماہ بعد واپس آیا کیااس کی کوئی تفتیشی نے تفتیش کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا اعظم خان نے شمالی علاقوں کی سیر کی۔ سردار طارق مسعود کاکہناتھاکہ 164اور161کے بیان پر بھروسہ کررہے ہو اگروہ جولائی میں مل گیا تھا تو کیوں بعد میں بیان ریکارڈ ہوا۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھاکہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے دوسرے اجلاس میںوزیر اعظم شہبازشریف نے کیوں نہیں کہاکہ وزیر اعظم کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی گم ہو گئی ہے۔ سردارطارق مسعود کاکہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تو ماشاء اللہ فیصلہ ہی کردیا ہے، خالی رسی دینے والی بات ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یہ کس طرح پاکستان کے دشمن ملک کی طرف سے استعمال ہوگا، پہلے ہم قانون کی وضاحت ہی نہیں کررہے، کس باہر ملک کو فائد ہ ہو گیا، اس خفیہ معلومات سے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ سہیل محمود کب تک سیکرٹری خارجہ رہے، یہ بتائیں 8فروری کو الیکشن ہے، ملزم بڑے سیاسی رہنما ہیں، آپ2018،1970اور1977کودہرانا چاہتے ہیں، کیا نگران حکومت نے ضمانت کی مخالفت کرنے کا کہا ہے، کیایہ لیول پلئنگ فیلڈہے، اگر باہر آجائیں تو کیاوہ دوبارہ یہ جرم کریں گے اورمفرور بنیں گے، مجھے سائفر کے مطلب کا پتا ہے، یہ الیکشن کا معاملہ ہے اگر اگر ضمانت دے دی جاتی ہے تواس سے کیا ہوگا، عدالت لوگوں کے بنیادی انسانی حقو ق کی محافظ ہے، ابھی سزانہیں ہوئی ہم انہیںمعصوم ہی تصورکریں گے۔
سردار طارق مسعود کا کہناتھاکہ ڈاکٹر اسد مجید خان تو مین بندہ تھا جس نے سائفر بھیجا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ حسین شہید سہروردی سے لے کر کتنے وزیر اعظم گزرے کسی کو پھانسی لگادی کسی کو باہر کردیا کیا اس سے پاکستان کاامیج باہر خراب نہیں ہوا۔ جسٹس سیدمنصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ مزید انکوائری کاکیس ہے، کیا اس میں نیب قانون کی طرح لکھا ہے کہ ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس پر رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ نہیں لکھا۔ سردارطارق مسعود کا کہناتھا کہ 10سال سے کم سزاوالے الزامات پر ضمانت ہوسکتی ہے۔ جبکہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ کیس میں ضمانت نہیں بنتی۔
جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ میں بیٹھ کر انسانی حقوق پر عملدرآمد نہیں کرواسکتے، ہمارا دائرہ اختیار توآئین کے آرٹیکل 186 اور187میں بھی ہے۔سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ عمران خان کا جرم پانچ اے میں آتا ہے، بی ، سی یا ڈی میں آتا ہے، غیر ملکی طاقتوں کے کس طرح مفاد میں بیان ہے، اعظم خان جو کہہ رہا ہے وہ دوماہ غائب ہونے کے بعد کہہ رہا ہے، جو میٹھا ، میٹھا ہے وہ رکھ لیں اورجو کھٹا، کھٹا ہے وہ پھینک دیں۔ سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے 80صفحے لکھ کر بھیجے ہیں کیا وہ میرٹ پر نہیں ہیں۔ عدالت نے دلائل کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی 10،10لاکھ روپے کے عوض ضمانتیں منظور کر لیں۔