جسٹس مظاہر نقوی مس کنڈکٹ کے مرتکب قرار، سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرفی کی سفارش کردی
سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی رائے صدر مملکت کو ارسال کردی ؟ رائے پر صدر مملکت کارروائی کے مجاز ہیں۔اعلامیہ
سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے برطرف کرنے کی سفارش کردی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 9 شکایات آئیں، انہیں مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹانا چاہیے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی رائے صدر مملکت کو ارسال کردی ہے اور رائے پر صدر مملکت کارروائی کے مجاز ہیں۔مزید کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے رول 5 میں ترمیم کردی ہے، رول 5 ججز کو شہرت سے بالاتر ہونے کا پابند بناتا ہے اور اس میں ترمیم کے بعد الزامات پر وضاحت دینے کا حق ججز کو دے دیا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز پر الزامات لگا کر ان کی تشہیرکی گئی،کئی ججز نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ججز کا موقف ہے کہ بے بنیاد الزامات پر جواب سے ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 5 کی خلاف ورزی ہوگی، کونسل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ بے بنیاد الزامات کا جواب دینے سے شق 5 کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، ججز کی تشویش کے باعث ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 5 میں ترمیم کی گئی ہے۔اعلامیے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف 6 مختلف شکایات کا جائزہ لیا، 6 میں سے 5 شکایات میں ایسا کوئی مواد نہیں تھا جس پرکونسل کارروائی کرے۔اعلامیے کے مطابق کونسل نے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج کے خلاف شکایت پر جج کو نوٹس جاری کیا ہے اور نوٹس کا جواب جمع کرانے کے لیے 14 دن کا وقت دیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے مظاہر نقوی کے خلاف 9 شکایات کا جائزہ لیا، ان شکایات کا جائزہ آئین کےآرٹیکل 206 کی شق (6) کے تحت لیا گیا، مظاہر نقوی ان شکایات میں مس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے، مظاہر نقوی کو جج کے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے تھا،واضح رہے کہ یکم مارچ کو سپریم کورٹ کے مستعفی جج مظاہر اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی مکمل کرلی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا شکایات پر آخری اجلاس چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں ہوا تھا، گواہان زاہد رفیق اور سپریم کورٹ ایمپلائز کوآپریٹو سوسائٹی کے صدر شیر افگن عدالت کے روبرو پیش ہوئے پیش ہوئے تھے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ہم نے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست پر کونسل کی کارروائی اوپن کی تھی، اگر جسٹس (ر) مظاہر نقوی پیش نہیں ہونا چاہتے تو ہم زبردستی نہیں کر سکتے، ان کو دفاع کا موقع دیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہونا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے اس کے وقت کے جج مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں سابق جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔20 نومبر کو سابق جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔
اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔4 دسمبر کو سابق جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔
6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔
13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔یاد رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔