تمام ماتحت عدالتوں پر سپریم کورٹ کافیصلہ ماننا لازم ہے۔ میرے منہ میں وہ باتیں نہ ڈالیں جو میں نے کبھی کہی نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ، سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ختم نہیں کرسکتا اس مقصد کے لئے لارجر بینچ بنانا ہو گا
ایک کیس پر پورادن تونہیں لگاسکتے ہم نے اورکیسز بھی سننے ہیں، دوران سماعت ریمارکس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک چیز آئین کولوگ کم پڑھتے ہیں، وکیل آئین کاآرٹیکل 189پڑھیں جس کے مطابق تمام ماتحت عدالتوں پر سپریم کورٹ کافیصلہ ماننا لازم ہے۔ میرے منہ میں وہ باتیںنہ ڈالیں جو میں نے کبھی کہی نہیں۔ کوئی ادارے ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں لوگ زیادہ ہوتے ہیں اورصدیاں گزرجاتی ہیں ترقی نہیں ملتی اورکچھ اداروں میں جلدی ترقی مل جاتی ہے۔ ایک کیس پر پورادن تونہیں لگاسکتے ہم نے اورکیسز بھی سننے ہیں۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ، سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ختم نہیں کرسکتا اس مقصد کے لئے لارجر بینچ بنانا ہو گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ایف آئی اے ملازمین بابرشہریار ، سید علی امام زیدی، حمدالرحمان اورنعیم خان کی جانب سے محکمانہ سنیارٹی کے معاملہ پرفیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلہ خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواستوں میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، کابینہ سیکرٹریٹ، اسلام آباد اور کے توسط سے وفاق پاکستان کو فریق بنایا گیا تھا۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے حافظ محمد طارق نسیم، محمد شفیق الرحمان، شاہ خاور اورمحمداظہر صدیق بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے۔وکیل حافظ محمد طارق نسیم کا کہنا تھا کہ 2015کی سنیارٹی لسٹ کے بعد 2023میں نئی سنیارٹی لسٹ آگئی اس کے خلاف ہم نے درخواست دائر کردی اورہمارے حق میں فیصلہ ہوا۔
ایڈیشنل اتارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ نیا فیصل کانسٹیبلز کی حد تک ہے، درخواست گزاروں کا گریڈ16تھا، ان کے ساتھیوں کو ان کے بعد میں ترقی ملی ہے، ان کے ساتھیوں کو2013اور2015میںترقی ملی۔ وکیل کا کہنا تھاکہ تین درخواست گزار کمرہ عدالت میںموجود ہیںجبکہ ایک درخواست گزارسپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب جانے سے پہلے سنیارٹی لسٹ کون سی تھی، ہم ایسا کردیں گے کہ اسی لسٹ کے مطابق کریں ، ہم پوزیشن بحال کردیںگے ، اپنی سابقہ پوزیشن پر آکر کھڑے ہوجائیں گے، اگر بیچ پروموٹ ہوچکا ہے تودرخواست گزار بھی پروموٹ ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب میں ملنے والی ترقی کو محفوظ کرکے ایف آئی اے میں واپس لانا مناسب نہیں ہوگا، جوسنیارٹی وہاں ملی درخواست گزاروہ اپنے ساتھ لانا چاہتے ہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزارانسپیکٹر کے طور پر نیب میں گئے اور وہاں پر اسٹنٹ ڈائریکٹر پروموٹ ہوگئے۔
چیف جسٹس کہنا تھا کہ ہم درخواست گزاروں کو بوٹم پر نہیں لے جائیں گے بلکہ ہم اسی جگہ لے جائیں گے جدھر تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنیارٹی نیب میں ہورہی ہے، ری پیٹریشن والے رولز دکھائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی ادارے ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں لوگ زیادہ ہوتے ہیں اورصدیاں گزرجاتی ہیں ترقی نہیں ملتی اورکچھ اداروں میں جلدی ترقی مل جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب میں گئے ترقی مل گئی اس پر توکوئی تنازعہ نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یاتوقانون خاموش ہو، اگر ایسانہیں توپھر درخواست گزاروںکے وکیل قانوبتائیں۔ وکیل حافظ محمد طارق نسیم کا کہنا تھا کہ مجھے پانچ منٹ دے دیں میں کیس سمجھادوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کاوقت شروع ہو گیا اس میںنے درمیان میںبات نہیں کرنی ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک چیز آئین کولوگ کم پڑھتے ہیں، وکیل آئین کاآرٹیکل 189پڑھیں جس کے مطابق تمام ماتحت عدالتوں پر سپریم کورٹ کافیصلہ ماننا لازم ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے منہ میں وہ باتیںنہ ڈالیں جو میں نے کبھی کہی نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ایک کیس پر پورادن تونہیں لگاسکتے ہم نے اورکیسز بھی سننے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ، سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ختم نہیں کرسکتا اس مقصد کے لئے لارجر بینچ بنانا ہو گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کاکام آئین کے آرٹیکل 212(3)کے تحت اصول کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر بھی آپ اپنے ساتھیوں پر کیسے ترجیح لے سکتے ہیں، واپس آکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے، نہ آپ کو اوپر دھکا دیاجائے گااورنیچے دھکادیاجائے گا، جہاں پرتھے وہیں پر آپ کو کھڑاکردیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سروسز ٹربیونل میں اپیل زیر التوا ہے اس کا قانون کے مطابق فیصلہ کردیں۔
اس موقع پر لاہور سے ویڈیو لنک پر وکیل محمد اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ وہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کے دلائل کی حمایت کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کھلے ذہن کے ساتھ کیس سننے کے لئے بیٹھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے فیصلہ لکھواتے ہوئے قراردیا کہ درخواستوں میں کوئی عوامی مفاد کے حوالہ سے کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا اس لئے درخواستیں ناقابل سماعت قراردے کرخارج کی جاتی ہیں۔