بحیرہ احمر میں لڑائی نے تیل کا بحران پیدا کردیا
بحیرہ احمر میں امریکا اور برطانیہ کی طرف سے یمن کی حوثی ملیشیا کے خلاف جوابی کارروائیوں سے عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ چار فیصد سے زائد بڑھ گئے۔ کارپوریٹ ارننگ سیزن کی ابتدا کے دنوں میں عالمی سطح پر تیل کے ذخائر ملی جلی کیفیت کا شکار۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک ماہ کے دوران بحیرہ احمد میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے مال بردار جہازوں پر حملے تیز کیے۔ راکٹ اور میزائلوں سے کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں تجارتی جہاز رانی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے جہازوں کو بھی نشانہ بنایا جاچکا ہے۔خطے کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر متعدد آئل کمپنیز نے اپنے تیل بردار جہازوں کا روٹ بدل دیا ہے۔
برٹش پٹرولیم بھی اب افریقا کی بندر گاہوں سے تیل کی ترسیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ایس ای بی بینک کے چیف اکنامسٹ جارن شیلڈراپ کا کہنا تھا کہ بحیرہ احمر میں حملوں اور جوابی کارروائیوں کے تیل ہونے سے تیل کی عالمی منڈی کا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ صورتِ حال غیر یقینی ہے۔
امریکا نے ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر ایک فوج بھی تیار کی ہے جو حوثیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی کے متاثر ہونے سے دنیا بھر میں تیل کی ترسیل کے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
تیل کی ترسیل میں ابھی سے مشکلات کا سامنا ہے۔اگر صورتِ حال زیادہ بگڑی تو ترقی یافتہ دنیا کے لیے مشکلات بڑھیں گی کیونکہ انہں اپنے صنعتی ڈھانچے کو مضبوط رکھنے کے لیے توانائی کی بڑی پیمانے پر ضرورت ہے۔
جارن شیلڈراپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ حوثی ملیشیا کے خلاف امریکا اور برطانیہ کی جوابی کارروائیوں کے ناکام رہنے کی صورت میں مزید تیل بردار کمپنیاں متبادل راستے اختیار کریں گی۔
یوں کم و بیش 8 کروڑ بیرل تیل متبادل بحری راستوں میں پھنس کر رہ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں تیل کی قیمت میں 5 سے 10 ڈالر فی بیرل تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ تیل کی عالمی منڈی ملی جلی کیفیت کی حامل ہے۔ معاملات بڑی خرابی کی طرف جارہے ہیں۔