Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

چین کی خارجہ پالیسی کا اصول "جیو اور جینے دو "

چین کا موقف " تعمیر ہے تخریب نہیں" " ترقی ہے بالادستی نہیں " اور یہی انسانی ترقی کی کلید ہے

sara afzal

                                                                                          تحریر :  سارہ افضل

 

چین کی خارجہ پالیسی کا اصول "جیو اور جینے دو "

چین کا موقف ” تعمیر ہے تخریب نہیں” ” ترقی ہے بالادستی نہیں ” اور یہی انسانی ترقی کی کلید ہے 

اس وقت  عالمی  "جیو پولیٹیکل”صورتِ حال بھی ایک "رولر کوسٹر رائیڈ”بنی ہوئی ہے۔اس "جیو پولیٹیکل کھیل ” میں مضبوط معاشی و سیاسی حیثیت کے حامل ممالک تو اتار چڑھاوسہہ جائیں گے لیکن  ترقی پذیر ممالک یا وہ ممالک جو معاشی اعتبار سے کمزور ہیں، اس اتار چڑھاو کے اثرات سے شاید ایک طویل عرصے تک باہر نہ نکل سکیں اور اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکیں جس کابراہِ راست اور طویل مدتی اثر ان کے  عوام کی فلاح و بہبود پر پڑے گا

کیا آپ کبھی رولر کوسٹر رائیڈ پر بیٹھے ہیں؟  یا پھر اس کے حوالے سے لوگوں کے تجربات کا مشاہدہ کیا؟  بظاہر  لوگوں کی تفریح کے لیے بنائی گئی اس رولر کوسٹر  کے اتار چڑھاو میں مضبوط اعصاب والے تو خود کو سنبھال لیتے ہیں تاہم کمزور اعصاب والوں کے لیے یہ بے حد خطرناک تجربہ ثابت ہوتا ہے  اور ان کو اس تجربے کے بعد چکراتے ہوئےسر کو سنبھال کر اپنے پاوں پر کھڑے ہونے  یا اس خوف سے نکلنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔  اس وقت  عالمی  "جیو پولیٹیکل”صورتِ حال بھی ایک "رولر کوسٹر رائیڈ”بنی ہوئی ہے۔اس "جیو پولیٹیکل کھیل ” میں مضبوط معاشی و سیاسی حیثیت کے حامل ممالک تو اتار چڑھاوسہہ جائیں گے لیکن  ترقی پذیر ممالک یا وہ ممالک جو معاشی اعتبار سے کمزور ہیں، اس اتار چڑھاو کے اثرات سے شاید ایک طویل عرصے تک باہر نہ نکل سکیں اور اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکیں جس کابراہِ راست اور طویل مدتی اثر ان کے  عوام کی فلاح و بہبود پر پڑے گا۔ برِ اعظم افریقہ کو دیکھیں یا عرب ممالک کو ، ایشیائی ممالک کو دیکھیں یا یورپ کے ترقی پذیرممالک کو  یہ سب جہاں ایک طرف اپنی ترقی کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے کی تگ ودو کرتے نظر آتے ہیں تو وہیں وہ اپنےمعاشی وسائل کو کچھ طاقتور ممالک کی مداخلت اور  بالادستی کے خلاف مزاحمت کے لیے جھونکتے نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ "عوام” کی فلاح و بہبود اور ان کا ترقیاتی عمل کہیں پس منظر میں چلا جاتاہے۔

اب آئیے حالیہ دنوں چین میں ہونے والے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس  اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور افغان عبوری حکومت کے مابین وزرائے خارجہ کےپہلےاجلاس کے اہم اتفاق رائے اور نتائج کی جانب ۔یہ دونوں اہم اجلاس چین کی، افغانستان اور خطے میں امن و امان کے قیام اور ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی ایک کڑی ہیں جن میں  افغانستان کی پرامن تعمیر نو اور مستحکم ترقی کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔اب  ذرا ایک نظر ڈالتے ہیں اس موقع پر چین کی جانب پیش کردہ تجاویز  اور اقدامات پرجو ان مذاکرات کا مشترکہ اتفاقِ رائے بھی قرار پائے ۔  پہلا ،” جیو پولیٹیکلکھیل” میں خود کو نہ الجھائیں بلکہ عملی تعاون پر توجہ مرکوز کریں؛ دوسرا، دوسروں پر رائے  مسلط نہ کریں بلکہ  مساوات و خودمختاری کا ساتھ دیں ؛ تیسرا، محض بڑی بڑی باتیں نہ کریں بلکہ  عملی کام کر کے دکھائیں۔  چوتھا، علاقائی روابط کو فروغ دیں اور پانچواں،کسی بھی قسم کے  تصادم میں شامل نہ ہوں اور کھلے پن اور جامعیت کا ساتھ دیں۔یہ تمام اقدامات محض باتیں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا حصول ناممکن ہے کیونکہ چین کی خارجہ پالیسی انہی اصولوں پر قائم ہے ۔انسان دوستی اور پر امن بقائے باہمی چین کا نظریاتی اصول ہے یہی وجہ ہے کہ چین کبھی بھی، کسی بھی ملک کے داخلی معاملات پر نہ تو بیان بازی کرتا ہے نہ ہی ان میں کوئی دخل اندازی کرتا ہے ہاں لیکن جہاں بات انسان اور انسانیت کی فلاح کی ہو وہاں وہ ” انسانیت ” کی مدد کرنے کے لیے ہمہ وقت پیش پیش رہتا ہے اور مذاکرات اور افہام و تفہیم سے تنازعات کو حل کرنےپر زور دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر چیننےافغانستان کی پرامن تعمیرنوکےلیےبے حد مثبت کرداراداکیاہے۔افغانستان کو 50 ملین ڈالرسےزائدمالیت کی خوراک،ادویات،اشیائےضروریہ فراہم کرنےسےلےکر  22 ملین ڈالرسےزائدآمدن حاصل کرنے والے افغان چلغوزے کی درآمد کےلیے 36 چارٹرڈپروازوں کےانتظامات تک کےاقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ چین افغانستان کی پرامن تعمیرنوکےلیےعملی طورپرکام کررہا ہےاورپرامید ہےکہ جن گزدہ ملک جلدازجلد بہترہوجائےگا۔افغانستان کے ایک عام شہری کی بھی یہی  رائے ہے کہ "چین وہ واحد بڑاملک ہے جس نےافغانستان کوکبھی نقصان نہیں پہنچایا”۔

اس وقت عالمی منظر نامے کو دیکھیں تو روس- یوکرین تنازعے کے باعث دنیا دو حصوں میں بٹی نظر  آتی ہے ۔ اس تنازعے کے آغاز کے بعد سے ہی امریکہ اور اس کے اتحادی ، چین سمیت دیگر ممالک  کو کسی ایک بلاک  کا حصہ بننے  پر مجبور کرتے چلے آ  رہے ہیں۔اس حوالے سے چینی حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ  چین ہمیشہ اپنے موقف اور پالیسی کا فیصلہ معاملے کی حقیقت اور  درست و غلط کے مطابق کرتا ہے اورہمیشہ امن اور انصاف کا ساتھ دیتا ہے۔ اسی لیے چین نے بارہا کہا کہ تمام فریقوں کے جائز سکیورٹی خدشات کا احترام کیا جانا چاہیے اور یوکرین اور متعلقہ مسائل کا جامع حل بات چیت اور گفت و شنید کے ذریعے تلاش کیا جانا چاہیے۔ جب کہ دوسری طرف یورپی اتحاد  عالمی برادری کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر روس کی مذمت کریں اور اس پر پابندیاں لگائیں۔امریکہ روس پرسخت پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف یوکرین کوہتھیارفراہم کر رہا ہے جوکہ جلتی پرتیل ڈالنے کےمترادف ہے ۔

یہ دونوں رویے اس بات کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرتے ہیں کہ یورپی اتحاد کے لیے سب سے بڑی ترجیح  روس کو عالمی طور پر تنہا کرنا ہے  اور اس کے لیے وہ ہر حد تک جا رہے ہیں جس سے لامحالہ ناصرف روسی و یوکرینی عوام کے لیے مسائل کا طوفان امڈ آئے گا بلکہ یہ دنیا کے لیے بھی ایک تباہی کا آغاز ہوگا۔  ان کی توجہ اس بات پر ہرگز نہیں ہے کہ یوکرینی  مہاجرین کو بچانا  ہےدونوں ممالک میں انسانی بحران پر قابو پانا ہے ، عالمی معاشی ترقی کی بحالی کو جاری رکھنا ہے یا توانائی کے عالمی بحران سے بچنا ہے  ان کو بس ایک ہی فکر ہے  کہ روس کو عالمی برادری سے خارج کرنا ہے اور یہ کام جلد از جلد کرنا ہے ۔ دوسری جانب صدرشی جن پھنگ نےفرانسیسی صدراورجرمن چانسلرکےساتھ ایک ورچوئل سربراہی اجلاس میں شرکت کےموقع پریورپی براعظم میں کشیدہ صورتحال پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئےاس مشکل صورتحال پرقابو پانےاورامن کےلیےروس اوریوکرین کےدرمیان مذاکرات کی حمایت کا اظہار کیا کیونکہ   مسئلے کا حتمی حل مذاکرات کو فروغ دینا اور اس کے ذریعے امن کو فروغ دینا ہے ۔چینی صدر نے یہ بھی کہا کہ ممالک کے درمیان تعلقات کو  تصادم کی سطح تک نہیں پہنچنا چاہیے۔بحران کے حتمی حل کے لئے  چین نے ایک واضح روڈ میپ بھی پیش کیا  جس میں بات چیت اور گفت و شنید کو جاری رکھنے، شہریوں کے جان و مال کو تحفظ دینے، انسانی بحران سے بچنے اور جلد از جلد  جنگ کے خاتمے کو ترجیح دی گئی ہے۔

اس تمام صورتِ حال میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چین کی جانب سے دونوں ممالک کے داخلی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی گئی ، البتہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد ، خوراک ، ادویہ کی فراہمی کی گئی نہ کہ اسلحہ فراہم کیا گیا ۔ ہر عالمی فورم پر چین نے ” مذاکرات ، بات چیت اور افہام و تفہیم”  پر زور دیا ہے ۔ افغانستان کا معاملہ ہو یا روس-یوکرین تنازع ، شام کا بحران ہو یا فلسطین کا مسئلہ چین کا کوئی بھی بیان کوئی بھی پیش رفت کسی ایک فرد یا حکمران کے حق میں نہیں بلکہ انسانیت اور امن و امان کے حق میں ہے اور اس کا موقف ہمیشہ سے بے حد واضح ہے کہ ہر ملک کو اپنی سلامتی اور اقتدارِ اعلی کے تحفظ کی خاطر خود فیصلے کرنے چاہیں اور کسی بیرونی دباو میں نہیں آنا چاہیے ترقی کا عمل ہو یا اپنی خارجہ حکمتِ عملی طے کرنی ہو ہر ملک کو اپنے عوام اور اس کی فلا ح و بہبود کے مطابق آزادانہ  فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے اس میں کسی کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیائی ممالک ہوں ، قریبی ہمسایہ ممالک ہوں یا دنیا کے کسی بھی خطے میں عوام اپنی حکومت کے انتخاب کے لیے جو بھی فیصلہ کریں، چین نہ تو ان کے انتخاب اور رائے پر کسی بھی طور  اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے نہ ہی کسی ملک کی منتخب حکومتوں کو  ختم کرنے یا ان کو قائم رکھنے کے حوالے سے کوئی  بھی بیان بازی کرتا ہے کیونکہ یہ چین کی خارجہپالیسی اور چینی اقدار کے خلاف ہے جسے نہ تو چین اپنے لیے پسند کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور کے لیے یہ عمل اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین پر اعتماد کرتے ہوئے اسلامی ممالک سمیت دنیا کے متعدد ترقی پذیر ممالک شراکت داری کے لیے اب امریکہ کی بجائے چین پر اعتماد کر رہے ہیں کیونکہ جو چین کوجانتا ہے اس کو علم ہے  کہ چین کا موقف ” تعمیر ہے تخریب نہیں” ” ترقی ہے بالادستی نہیں ” اور یہی انسانی ترقی کی کلید ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More