Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

چین ،اپنی کامیابیاں دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہوئے مشترکہ خوشحالی کے تصور کو حقیقت بنارہا ہے

چین نے ان چیلنجز کے باوجود جدیدیت کے سفر کو رکنے نہیں دیا اور چینی تصورات و نظریات کی مضبوط بنیاد پر چینی جدیدیت کے تصور پر کام جاری رکھا

سارہ افضل

تحریر: سارا افضل

 

چین ،اپنی کامیابیاں دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہوئے  مشترکہ خوشحالی  کے تصور کو حقیقت بنارہا ہے

ماضی میں چین بھوک اور افلاس کے انتہائی مشکل دور سے گزرا ہے یہی وجہ ہے کہ چین کی حکومت  اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی اہمیت کو بخوبی سمجھتی ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے ، چین نے لوگوں کے معیارِ زندگی اور اس کےلیے ہر شعبے کو جدید خطوط پر ترقی دینے کو اپنی پالیسیز کا مرکز  رکھا ہے اور سی پی سی  روزگار ،  آمدن، تعلیم ،صحت اور قانون  سمیت تمام شعبوں کے ذریعے  لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

چین کی خوشحالی نہ صرف معاشی خوشحالی ہے بلکہ یہ سماجی و  ثقافتی خوشحالی بھی ہے جو  بلا تخصیص ہر ایک کے لیے، تمام قومیتوں کے لیے ہے ۔یہ ایک ایسا تصور ہے جو چین دنیا کے ساتھ  ساجھتا ہے۔

 گورننس سسٹم میں چینی قیادت کی مضبوطی واضح ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ  ترقیاتی امور اور مستقبل کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی  میں چین ۵ سال بعد کے لیے جو ہدف مقرر کرتا ہے انہیں وقت ے پہلے حاصل کر لیتا ہے ۔

منظم منصوبہ بندی ، وسائل کے بھرپور ، درست اور بروقت استعمال اور عوام کی جانب سے قیادت اور اس کے تصورات  پر مکمل اعتماد کے باعث یہ بات یقین  سے کہی جا سکتی ہے کہ چین جن اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ۲۵ سے ۳۰ سال کا وقت مقرر کرے گا وہ انہیں ۲۰ یا ۲۵ سال کے اندر اندر حاصل کر لے گا ۔  یہ قیادت اور عوام کے ایک دوسرے پر اعتماد کی ایک شاندار مثال ہے۔ چینی معیشت کی ترقی اور جدیدیت کی جانب چین کا تیز رفتاری سے جاری سفر یہ سب بہترین انتظام و انصرام اور حکومت اور عوام کے درمیان موجود اعتماد کا نتیجہ ہے ۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس تمام ترقی میں صرف اندرونی معاملات پر ہی انحصار نہیں ہوتا ہے بلکہ بیرونی دنیا اور خارجی عناصر سے بھی واسطہ رہتا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ  چین کو کسی بھی قسم کے چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، چیلنجز موجود ہیں لیکن وہ صرف چین کو درپیش چیلنجز نہیں ہیں، وہ عالمی چیلنجز ہیں، مثال کے طور پر، کوویڈ  کی وبا ، مختلف عالمی تنازعات اور ان سب کے باعث عالمی معیشت پر پرنے والے منفی اثرات جس سے تمام دنیا متاثر ہوئی ہے،  لہٰذا چین کو باقی دنیا سے الگ نہیں کر سکتے

. تاہم چین نے ان چیلنجز کے باوجود جدیدیت کے سفر کو رکنے نہیں دیا اور چینی تصورات و نظریات کی مضبوط بنیاد پر چینی جدیدیت کے تصور پر کام جاری رکھا اور اس کے نتیجے میں اپنے تجربات اور حاصل ہونے والی کامیابیوں کو دنیا کے ساتھ بھی ساجھا تاکہ صرف ایک چین نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک اور عوام بھی جدید ترقی اور خوشحالی سے فائدہ اٹھائیں۔ مغرب میں ، جدیدیت کا مطلب ایک جدید معیشت  اور ایک جدید بنیادی ڈھانچہ  ہے، چین میں ، "جدیدیت” کا مطلب اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کا مطلب اداروں، تعلیمی اور سیاسی نظام کو جدید بنانا ہے کیونکہ اگر  اداروں، تعلیم اور گورننس کو جدید نہیں بنایا جائے گا تو مشترکہ خوشحالی کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔

یہ بات ایک حقیقت ہے کہ  جب کسی معاشرے نے مشترکہ خوشحالی کے حصول کی جانب قدم بڑھائے ہیں تو اس معاشرے نے توازن اور امن حاصل کیا ہے۔

چین کئی دہائیوں سےتیزی سے ترقی کرنے والے ایک بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے حجم، آبادی، ہنرمند افرادی قوت اور دیگر معاشی بنیادوں کی وجہ سے اس کے ایک بڑی عالمی معیشت بننے کے امکانات بے حد مضبوط اور واضح ہیں ۔

چین کی اقتصادی تاریخ کا تجزیہ عام طور پر ۱۹۴۹ میں عوامی جمہوریہ چین  کے قیام کے بعد سے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں اور پیشرفت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ چین نے بڑی معاشی لیگ میں قدم رکھنے کے لیے خود کو باقی دنیا سے الگ تھلگ نہیں کیا ہے بلکہ  عالمی سطح پر متعدد ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کے ذریعے ، چین نے خاص طور پر ان ممالک کے بنیادی ڈھانچے اور تجارتی ترقی پر بے حد مثبت اثرات مرتب کیے ہیں ۔

ترقی پذیر ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات مغربی ماڈل کے برعکس مشترکہ تجارتی منصوبوں پر مرکوز رہے ہیں۔ غریب معیشتوں کو براہ راست امداد  کی پیشکش کرنے کے بجائے، حکمت عملی یہ رہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی ضرورت کے مطابق مصنوعات کی پیداوار اور نقل و حمل کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور چین کی یہ حکمت عملی مقامی اور بین الاقوامی دونوں مارکیٹس کےلیے یکساں کامیاب رہی ہے۔  اس سلسلے میں چین نے متعدد بین الاقوامی پلیٹ فارم فراہم کیے ہیں  مثلاً  چائنا امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ فیسٹیول ، جسے عام طور پر کینٹن فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے ، ممالک کے مابین عالمی تجارت کے لئے ایک حقیقی پلیٹ فارم بن گیا ہے۔

 میلے میں فروخت ہونے والی مصنوعات ترقی پذیر ممالک میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کی ترقی سے متعلق ہیں۔ چینی   ٹیکنالوجیز   میں سرمایہ کاری پرکشش ہے  کیونکہ یہ بہترین سروسز فراہم کرتی ہیں اور ساتھ ہی تیاری کی لاگت  کے اعتبار سے بھی اور  خریدار کے لیے مناسب  قیمت کے لحاظ سے بھی بے حد مناسب ہیں.اس کا مطلب ہے کہ ان میں  سرمایہ کاری گھاٹے کا سودا نہیں ہے اور کم  سرمایہ کاری پر  بہترین منافع بھی ہے۔

مختلف ترقی پذیر ممالک کے اتحادوں میں چین کا کردار علاقائی اقتصادی ترقی میں بھی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ کامیابی کی ایک  کہانی تو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن آسیان کے ساتھ چین کا تجارتی تعاون ہے۔

ایسوسی ایشن کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین نے ۲۰۰۹ سے گروپ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ آسیان کے اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۹  میں سامان کی دوطرفہ تجارت آسیان کی کل تجارت کا 18 فیصد تھی۔ یہ ۲۰۱۰   کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ ہے اور ۲۰۰۵ میں آسیان-چین تجارتی  معاہدے کے نفاذ سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔

ایشیا کے علاوہ براعظم افریقہ جو زیادہ تر ترقی پذیر معیشتوں پر مشتمل ہے یہاں  فورم آن چائنا -افریقہ کوآپریشن  کے ساتھ چین کی موثر شراکت داری کی کامیابی بھی مثالی ہے اس شراکت داری میں  معیشت، امن و سلامتی، ثقافتی اور سیاسی تبادلے شامل ہیں جب کہ  غیر مالیاتی شعبے مضبوط سماجی تعلقات قائم کرنے میں موثر رہے  جو تجارتی تعلقات میں اہم ہیں۔

حالیہ منصوبوں نے چین کو تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک  کی ترقی میں مرکزی حیثیت دے دی  ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو دنیا کے تمام  ترقی پذیر ممالک کو جوڑ رہا ہے۔

اس منصوبے کو شریک ترقی پذیر ممالک میں غربت کے خاتمے میں گیم چینجر کے طور پر سراہا گیا ہے اور انہیں ریلوے، سڑکوں اور توانائی میں سرمایہ کاری کے ذریعے کھول دیا گیا ہے۔ کووڈ کے باعث  دنیا نے مشکل صورتِ حال اور چیلنجز کا سامنا کیا ہے  اس کے باوجود چین نے دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اپنی شراکت داری کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ اگرچہ دنیا بھر میں معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے ، لیکن چین نے لاکھوں ڈالر مالیت کے طبی سازوسامان ، اور ویکسین کے عطیات تک رسائی کو یقینی بنایا تاکہ تمام ممالک اس بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں۔چین نے دیگر ترقی پذیر ممالک کو دیہی علاقوں میں عوامی سہولیات کی تعمیر، زرعی پالیسی کے تجربات کا اشتراک کرنے، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور دیگر طریقوں سے مدد کرکے غربت کو کم کرنے اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے.

جدیدیت کے لیے چین کا اپنا منتخب کردہ راستہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک تحریک ہے۔ ایک بہترین خوشحال مستقبل کے لیے چین جس حکمت عملی کو لے کر چل رہاہے وہ  یہی ہے کہ ترقی کے فوائد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائے جائیں اور  انہیں اتنا دیرپا اور پائیدار بنایا جائے کہ آنے والی نسلیں بھی ان سے مستفید ہوں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More