فرحت عباس شاہ
معدنی ترقی کے لئے ریاست پاکستان کی کامیاب حکمت عملی
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے رب تعالیٰ نے اسے شاندار جغرافیائی لوکیشن کے ساتھ ساتھ چار موسموں ، دریاؤں، پہاڑی ، میدانی اور صحرائی علاقوں سے نوازا ہے ۔ گرم پانی رکھنے والے عظی، سمندر بھی پاکستان کو نصیب ہیں ۔ گرم پانیوں تک رسائی کی اہمیت ان ممالک سے پوچھیے جو اس نعمت سے محروم ہیں ۔ اسی طرح معدنیاتی وسائل سے بھی قدرت نے سرزمین پاکستان کو اتنا نوازا ہے کہ جس کا کوئی حساب نہیں ۔ ہمارے ملک کی غربت صرف اور صرف ہماری اپنی نیت اور اعمال کا نتیجہ ہے ورنہ آج ہم اپنی نیت درست کر لیں تو ملک اور چوبیس کروڑ عوام کے نصیب بدلنے میں دیر نہ لگے۔
کم و بیش ہر دور حکومت میں پاکستان کے قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر کی دریافت ، برآمدگی اور تجارت کا موضوع زیر بحث رہا ہے ۔ خاص طور پر ریکو ڈک سے برآمد ہونے والے سونے اور تانبے کے ذخائر کی بات تو ہمارے عوامی حلقوں سے لے کر بین الاقوامی حلقوں تک زبان زد عام و خواص رہی ہے ۔ پچھلے دور حکومت میں منسٹری فارپلاننگ ، ڈویلپمینٹ اینڈ ریفارمز کے تحت ایک رپورٹ تیار کروائی گئی جس میں معدنی ذخائر کی تفصیلات ، پیداواری حجم ، اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کے تناسب اور اس کی راہ میں حائل قانونی و محکمہ جاتی رکاوٹوں کا جائزہ لیا گیا ۔ رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نوے سے زائد معدنیات بشمول ۔۔۔
ایلومینیم (Aluminium)،کحل (Antimony)،زرنیخ (Arsenic)،کرومائیٹ (Chromite)،کوئلہ (Coal)،تانبا (Copper)، ڈولومیٹ ،موتی بلور(Dolomite)، سونا (Gold)، خام لوہا(Iron ore)، پیتل (Brass)،آتشی مٹی (Fire clay)، فلورائٹ (Fluorite)، شیشہ بالو (Glass sand)، لعل (Garnet)، گرینائٹ (Granite)، گریفائٹ (Graphite)، جپسم (Gypsum)، سیسہ (Lead)،میگنیسائیٹ (Magnesite)، مینگنیز (Manganese)،ٹنگسٹن (Tungsten)، خارصین (Zinc)، باریٹ (Barite)
غیر دھاتی
اسبسٹاس (Asbestos)، کھارا پانی (Brine)، کیلسائٹ (Calcite)، کاولینائٹ (Kaolinite|Kaolin)،لگنائٹ (Lignite)، لائمنائٹ (Limenite)،چونے کا پتھر (Limestone)، سنگ مرمر (Marble)، ابرق (Mica)، فاسفورائٹ (Rock phosphate)، پوٹاش (Potash)
چقہاق (Pyrite)، تابکار معدنیات (Radioactive minerals)، پہاڑی نمک (Halite)، ریت
(Sand) ، سنگ صابون (Soapstone)، گندھک (Sulphur)،سنگ دودی (Vermiculite)،
جواہرات اور قیمتی پتھر
زبرجد (Peridot)، نیلگوں زبر جد (Aquamarine)، گلابی زبرجد (Morganite)، پکھراج (Topaz)، یاقوت (Ruby)، زمرد (Emerald)، بیسٹانسئٹ (Bastnaesite)،زینو ٹائم (Xenotime)، ٹیٹانائٹ (Titanite)، ترملین (Tourmaline)، صوان (Quartz)، اپیڈوٹ (Epidote)، کورینڈم (Corundum)، ٹائٹانائٹ (Titanite)، کلنوزویسائٹ (Clinozoisite)، لعل (Garnet)، سکاپولائٹ (Scapolite)، زرکون (Zircon)، روٹائل صوان (Rutile quartz)، آلووائل ڈائیوپسائڈ (Alluvial diopside)، پولیوسائیٹ (Pollucite)، اپاٹائٹ (Apatite)، سپائنل (Spinel)، پرگاسائٹ (Pargasite)، زویسائٹ (Zoisite)،یاقوت ارغوانی (Amethyst)، شیلائٹ (Scheelite)، سنگ لاجورد (Lapis lazuli)،بروکائٹ (Brookite)، ایناٹیز (Anatase)، مرمر سبز (Malachite)، ایزورائٹ
پائی جاتی ہیں۔(Azurite)،اوبسیڈین (Obsidian)، فلورائٹ (Fluorite)، اراگونائٹ (Aragonite) ۔
پلاننگ کمشین آٖف پاکستان کے مطابق پاکستان 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط معدنیات کے بڑے ذخائر سے مالا مال ہے ۔ ان 92 معروف معدنیات میں سے 52 کا تجارتی استعمال کیا جاتا ہے جن کی کل پیدوار 68-52 ملین میٹرک ٹن سالانہ ہے ۔ یہ یاک امید افزاء شعبہ ہے جس کی اوسط نمو 2-3 فیصد سالانہ ہے جس میں 5 ہزار سے زائد آپریشنل کانیں موجود ہیں ، 50 ہزار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اور 3 لاکھ کارکارکننان کا براہ راست اس روزگار سے وابستہ ہے۔
ملک میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کانیں ہیں ۔ تانبے سونے کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں-کوئلے کے دوسرے بڑے ذخائر کے ساتھ ساتھ اربوں بیرل خام تیل بھی موجود ہے۔لیکن یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ معدنی دولت کے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود ہماری معیشت میں معدنیات کا حصہ بہت کم ہے۔ جس کی وجہ ٹیکنالوجی اور مہارت کی کمی کے علاوہ پاکستانی حکومتوں کی انتظامی کمزوری بھی رہی ہے ۔
پاکستان کے جی ڈی پی میں معدنیات کے شعبے کا حصہ تقریباً 3 فیصد ہے اور ملک کی برآمدات دنیا کی کل برآمدات کا صرف 0.1 فیصدہیں۔ سال 2017 میں دنیا کی کل معدنی برآمدات 401 بلین امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی کل معدنی برآمدات 0.5 بلین امریکی ڈالر تھیں۔لیکن اﷲکا شکر ہے کہ پاکستان کی خطرناک معاشی صورتحال کے پیش نظر اس بات کا احساس حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے ۔
یہی وجہ ہے پالیسیوں کا جائزہ اب ریاستی سطح پر لیا جا رہا ہے ۔ پاکستان کی موجودہ پالیسی کے مطابق معدنیات کی برآمدگی ، ریفائمنمنٹ اور تجارت کی راہ میں حائل چیلینچز کا مقابلہ کرنے کی نہ صرف حکمت عملی بنائی جا رہئ ہے بلکہ تیزی سے عمل اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
بعض اوقات مشکل حالات کا آنا مشکلات کا حل بھی ساتھ لے کر آتا ہے۔ پاکستان اس لمحے تاریخ کے مشکل ترین وقت سے گزر رہا ہے ۔بہر طور یہ امر بھی انتہائی اہم ہے کہ پوری دنیا اس وقت اکنامک پیراڈائم شفٹ سے گزر رہی ہے جس میں معیشت کا مرکز یورپ اور امریکہ سے نکل کر ایشیا میں منتقل ہو رہا ہے۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے جب کوئی ڈالر کے زوال کی بات کرتا تھا تو اسے دیوانے کی بڑ سے زیادہ توجہ حاصل نہیں ہوتی تھی لیکن عالمی تجارت میں آج یوآن اور روبل ، ڈالرکی جگہ لیتے نظر آ رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ خود پاکستان جس کی معیشت ہمیشہ ڈالر کے دبائو میں رہی ہے، روس کے ساتھ تیل کی ادائیگی ڈالر کے بجائے یوآن میں کر رہا ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معیشت کا مرکز و محور تبدیل ہو رہا ہے اور یہ دنیا کے جس خطے کے حصے میں آ رہا ہے اس میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت شہ رگ جیسی ہے ۔
سی پیک اور گوادر اسی گرینڈ اکنامک شفٹ کا حصہ ہیں ۔ دوسری طرف امریکہ جیسے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر مزید قرضوں کے حصول کے لیے قرضوں کی حد بڑھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ برطانیہ بھی اس وقت اکنامک ہائی الرٹ پر نظر آ رہا ہے ۔ فرانس سمیت یورپ کے دیگر ممالک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ۔ جبکہ ہمارے خطے میں چین کی امن کوششیں جہاں چین مخالف ممالک کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن رہی ہیں وہاں پاکستان ، ایران ، سعودی عرب ، ترکی ، روس اور خطے کے دیگر دوست ممالک کے لیے ایک نئے پر امن معاشی عہد کے آغاز کی نوید سنا رہی ہیں ۔
ماضی میں پاکستان میں زیادہ تر معاشی پالیسیوں اور اقدامات کے پیچھے ریاست پاکستان کے بجائے سیاسی حکومتوں کی عملداری رہی ہے جس کا نقصان یہ ہوتا آیا ہے کہ جب ایک حکومت جاتی ہے تو ان کے بنائے گے محدود المدتی منصوبے یا تو ان کے ساتھ ہی ختم ہوجاتے ہیں یا ان کے بعد آنے والی حکومت انہیں بند کرکے اپنے نئے منصوبوں کا آغاز کر دیتی ہے ۔
یہ بہت خوش آئند ہے کہ بالآخر اتنے نا مساعد حالات میں پاکستان کے حقیقی معاشی ایشوز کو سنجیدہ لیتے ہوئے حکومت کی بجائے ریاست کی سطح پر ضروری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور طویل المدتی منصوبوں پر فوکس کرنے کی پالیسی پر پوری سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا سب سے پہلا قدم معیشت کی بحالی کے گرینڈ قومی پلان کی تیاری اور س سلسلے میں خصوصی سرمایہ کاری کمیٹی، سپیشل انویسٹمینٹ فیسیلیٹیشن کونسل کا قیام ہے ۔ جو کہ انویسٹمینٹ کے لیے قائم کیے گئے اہداف کو پورا کرنے کے لیے اندرونی و بیرونی انویسٹمینٹ کے رستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے فوری ایکشن لے رہی ہے ۔
پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی نمائندگی میں پاکستان آرمی کا کردار اس کونسل کی روح قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ریاست کے تحت یہ گرینڈ معاشی بحالی پروگرام ایک ضلع سے لے کر صوبائی اور صوبائی سے قومی سطح پر ون یونٹ ون ونڈو آپریشن کے اصول پر عمل پیرا ہوچکا ہے تاکہ ایک تو مقامی سطح کی محکمہ جاتی رکاوٹیں کسی جگہ حائل نہ ہوسکیں اور دوسرا اگر کہیں کسی لیول پر کوئی قانونی سقم آڑے آتا ہے تو اسے ضرورت کے مطابق صوبائی اور قومی ہر دو مرکزی سطحوں پر حل کرنے کی فوری کوشش کی جائے اور قانونی ریفارمز کے ذریعے ریاست کے لیے انتظامی امور نمٹانے کی استعداد میں اضافہ بھی ہو ۔
اس وقت ریاست پاکستان کی طرف سے انویسٹرز سے لے کر آپریشنل انسٹرومینٹس تک سہولت پہنچانے کا فول پروف نظام مہیا کرنے پر بہت تیزی سے کام کیا جا رہا ہے ۔ ہر سطح پر بنائی جانے والی کمیٹیوں میں ان تمام ذمہ داران کو شامل کیا گیا ہے جو اس گرینڈ پلان کی کامیابی کو یقینی بنائیں گے جس میں کلیدی رول انتظامی اور تکنیکی مدد فراہم کرنے والی پاکستان آرمی کا ہے ۔ یہاں تک کہ انوسٹمینٹ فیسیلیٹی کمیٹی میں وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی شمولیت اس بات کی ضمانت ہے کہ اس نازک ترین مرحلے پر نظام ریاست میدان عمل میں آ چکا ہے ۔ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو یہ کہنا ہرگزغلط نہیں ہوگا کہ پاکستانی سیاسی صورتحال میں مسلسل بگاڑ کے باعث اور حکومتی معاملات میں سیاستدانوں کی لگاتار ناکامیوں کے باعث اب بین الاقوامی سرمایہ کار نہ تو سیاستدانوں پر بھروسہ کرتے ہیں نہ سیاسی بحرانوں کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں پر ۔
پاکستان کے پاس ان کا اعتماد جیتنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ ہے بھی نہیں سوائے اس کے کہ ریاست پاکستان براہ راست ان کے ساتھ ڈیل کرے تاکہ انہیں یہ اعتماد حاصل رہے کہ پاکستان میں کسی حکومت یا سیاسی پارٹی کے آنے جانے سے ان کے تجارتی معاہدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اب ان کے معاہدے ریاست پاکستان سے ہیں ۔
ریاست کے آگے بڑھ کر یہ ذمہ داری سنبھالنے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ملک میں لانگ ٹرم ترقیاتی منصوبوں کا رواج پڑے گا کیونکہ ان منصوبوں کے پیچھے ادارے موجود ہوں گے ۔ اداروں کو بھی احساس ہوگا کہ ان کو زیادہ قابل اور ماہر ہیومن کیپیٹل چاہیے ۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پروفیشنل ہیومن ریسورس کی ویلیو بڑھے گی اور لوگوں کو باہر جانے کے بجائے اپنے وطن میں ہائی لیول جابز میسر آئیں گی ۔
معدنی ترقی کے لئے گلدٓف ممالک چین اور چند دیگر بین الااقومی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کا آغاز دراصل پاکستان کی معاشی مشکلات کے خاتمے اور ترقی کا آغاز ہے ۔ اگرچہ پاکستان کے سنجیدہ اور مخلص حلقوں کی سوچ تو ہمیشہ رہی ہے کہ پاکستان کے قدرتی وسائل کو جدید طریقوں سے بروئے کار لایا جائے لیکن بد قسمتی سے بوجوہ یہ سوچ کبھی پروان نہیں چڑھ پائی۔
لہذاٰ ان تمام چیلنچز کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بار معیشت کی بحالی و ترقی کے لئے کسی ایک حکومت پر انحسار رکھنے کے بجائے ریاست پاکستان کا براہ راست کردار زیادہ نمایاں اور موثر نظر آ رہا ہے یقیناً یہ ایک شانار فیصلہ بھی ہے اور عمل بھی۔
کسی دانا کا قول ہے کہ اگر بروقت درست فیصلے کت لئے جائیں تو مشکل ترین حالات خود بخود آسانیاں پیدا کرنے کا باعث بن جایا کرتے ہیں۔
Source(s) & Courtesy: HILAL Magazine