9 مئی جلائو گھیراو کیس،شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد ،عمر سرفراز چیمہ و دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں پر فرد جرم عائد
لاہور: انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو گاڑیاں جلانے اور جلائو گھیرائو کے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چوہدری پر فرد جرم عائد کر دی ۔
انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے جیل میں سماعت کی۔ تمام ملزمان کو جیل میں قائم عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے برہان معظم ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے 16 دسمبر کو گواہان کو طلب کر لیا۔ ملزمان کے خلاف تھانہ سرور روڈ کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی۔
ملزمان کے وکیل برہان معظم ملک نے عدالت کے باہر نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کا شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، عمر سرفراز چیمہ، میاں محمود الرشید سے مکالمہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ جج نے شاہ محمود قریشی کو چارج فریم کے لیے دستخط کرنے کا کہا، جس پر شاہ محمود قریشی نے جج سے کہا کہ مجھے تو پتا ہی نہیں کہ میں نے کیا کیا ہے۔ میں موجود ہی نہیں تھا یہ ایک سیاسی کیس ہے میں نے جرم کیا کیا ہے؟
وکیل برہان معظم ملک کا کہنا تھا کہ جج نے میڈم کو پڑھنے کی ہدایت کی کہ پڑھ لیں، شاہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے پڑھ کر سنائیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جج نے ریمارکس دئیے کہ آپ دستخط کریں یا نہ کریں میں چارج فریم کر دوں گا، جس پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مجھے علم نہیں کہ میں نے جرم کیا کیا ہے۔
وکیل برہان معظم ملک نے مزید کہا کہ جج نے ریمارکس دیے کہ کے۔265کی درخواست دیں میں فیصلہ کر دوں گا، جس پر شاہ محمود قریشی نے مؤقف اپنایا کہ مجھے سال بعد جیل میں رکھنے کے لیے نامزد کر دیا گیا۔ ان کے مطابق سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے تفتیش کی تو 2گواہ تھے، جنہوں نے کہا کہ ہم زمان پارک میں پی ٹی آئی کارکنان کے بھیس میں زمان پارک 6 تاریخ کو گئے، جس پر جج صاحب نے سرکاری وکیل کی تصحیح کی کہ 6نہیں 7تاریخ ہے۔ وکیل برہان معظم ملک کے مطابق سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ آپ نے زمان پارک سازش کی، جس پر شاہ محمود قریشی نے مؤقف اپنایا کہ یہ جھوٹی کارروائی ہے، میں 7 تاریخ کو زمان پارک میں تھا ہی نہیں۔ ملزمان کے وکیل نے بتایا کہ جج نے ریمارکس دئیے کہ سارے ملزم کہتے ہیں کہ میں نے جرم نہیں کیا۔ وکیل برہان معظم نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے پاکستان کے لیے خدمت انجام دی ہیں، ہمیں ضمانت نہیں دی جا رہی، ہمارا فیئر ٹرائل نہیں ہو گا۔ وکیل ملزمان کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اب پھر جیل میں ہمیں کیوں رکھا ہے؟
جس پر جج نے ریمارکس دئیے کہ میرے پاس زیر التوا ضمانت پر بحث کریں، میں ضمانت دے دوں گا یا خارج کر دوں گا۔ وکیل برہان معظم نے نجی ٹی وی کو مزید بتایا کہ جج نے کہا کہ جب تک ثابت نہیں ہوتا تب تک ملزم بے گناہ ہوتا ہے، جس پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر ہم معصوم ہیں تو پھر ہمیں جیل میں کیوں رکھا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے مؤقف اپنایا کہ اس جیل میں قاتل، ناجائز فروش مجرم ہیں، سب کو ضمانت مل جاتی ہے، ہمیں بے گناہ رکھا ہوا ہے میری ضمانتوں پر 3، 3 دفعہ بحث ہوئی کسی نے فیصلہ نہ کیا۔ میاں محمود الرشید نے بتایا کہ آپ ہماری ضمانت کریں یا خارج کریں لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد کی ضمانت کر دیں یہ کینسر کی مریضہ ہے۔وکیل برہان معظم کے مطابق عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال سے فیصلہ نہیں ہو رہا۔ وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ ہم کس کے پاس جائیں؟ میں بے گناہ ہونے کے باوجود آپ کے کہنے پر دستخط کر رہا ہوں۔
واضح رہے کہ 18 نومبر کو بھی لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات سے متعلق ایک مقدمے میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی اور اعجاز چوہدری سمیت 21 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تھی۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج نے سماعت کی۔
عدالت نے تھانہ ریس کورس میں درج مقدمے میں شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری کے علاوہ عمر سرفراز چیمہ سمیت 21ملزمان پر پر فرد جرم عائد کی تھی۔ بعد ازاں، 21 نومبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی 2023 کو جلاو گھیراو کے ایک اور مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، عمر سرفراز چیمہ، میاں محمود الرشید پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔ ملزمان کے خلاف لاہور کے تھانہ مغلپورہ میں گاڑیاں جلانے کا مقدمہ درج ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹائون میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن)کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔ مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہائوس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلا ئو گھیرا ئو میں ملوث 1900افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنمائوں اور کارکنان کیخلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔