ہم کسی کے خلاف نہیں، ماحولیات کاتحفظ چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ہم کسی کے خلاف نہیں، ماحولیات کاتحفظ چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

دنیا درخت لگارہی ہے اورہم درخت کاٹ رہے ہیں،ٹھیکے والا سسٹم قابل اعتماد نہیں

سی ڈی اے کے ذہن میں ہے کہ ہم مالک ہیں اور ہماراکوئی احتساب نہیں ہوگا

  سی ڈی اے وکیل تین روز میں کوئی تجویز دینا چاہیں تودیں ،اس کے بعد ہم حکم جاری کریں گے

اب ہم ایف نائن پارک میں درختوں کی کٹائی کے حوالہ سے طریقہ اختیار کریں گے

ایف  نائین فاطمہ جناح پارک میں درختوں کی کٹائی کے معاملہ پر لئے گئے ازخودنوٹس پر سماعت پر ریمارکس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم کسی کے خلاف نہیں، ہم ماحولیات کاتحفظ چاہتے ہیں، درخت اس وقت کاٹ رہے ہیں جب درختوں پر پتے نہیں، درختوں کی کٹائی کے بعد اسلام آباد میں مٹی ہی اڑے گی۔ سی ڈی اے کے ذہن میں ہے کہ ہم مالک ہیں اور ہماراکوئی احتساب نہیں ہوگا۔ سی ڈی اے کے ملازم ساڑھے چارہزار مالیوں کو پاکستان کے ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے تنخواہ دی جاتی ہے، ہر چیز ٹیکس پیئر ہی کررہا ہے، شہریوں کو ملتا کیاہے۔ ہم اتنے نالائق ہیں کہ ہمیں ایک درخت کاٹنا نہیں آتا، ساڑھے چارہزار مالی بھرتی کئے ہوئے ہیں، دنیا درخت لگارہی ہے اورہم درخت کاٹ رہے ہیں۔ کنٹریکٹر کا مفاد تویہ ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ کاٹ لے۔ٹھیکیدارکا مفاد کچھ اورہوتا ہے ، محکمے اور زشہریوں کا مفاد کچھ اورہوتا ہے۔ جہاں تک پیپر ملبری کے درخت کاٹ رہے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، دوسری چیزیںنہ کٹ جائیں۔ چیف جسٹس نے سی ڈی اے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ تین روز میں کوئی تجویز دینا چاہیں تودیں کہ اب ہم ایف نائن پارک میں درختوں کی کٹائی کے حوالہ سے یہ طریقہ اختیار کریں گے،اس کے بعد ہم حکم جاری کریں گے۔ ٹھیکے والا سسٹم قابل اعتماد نہیں۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز اسلام آباد کے ایف 9فاطمہ جناح پارک میں درختوں کی کٹائی کے معاملہ پر لئے گئے ازخودنوٹس پر سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس،سی ڈی اے کے وکیل حافظ عرفات احمد چوہدری، سی ڈی اے حکام ، وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے حکام،وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آبادکے حکام، وکلاء سعد ممتاز ہاشمی،سید حسن علی رضا ، پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے صدرمیاں عقیل افضل اور سیکریٹری جنرل عمران وسیم سمیت دیگر حکام نے عدالتی نوٹس پر پیش ہوکراپنی، اپنی رپورٹس پیش کیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ ایف نائن پارک میں جہاں درختوں کی کٹائی کی جارہی ہے وہاں کی ویڈیو بنائی ہے۔ اس پر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے صدر میاں عقیل افضل نے ویڈیو کی کاپی فراہم کی۔

دوران سماعت ڈاکٹر رضا بھٹی نے پیش ہوکربتایا کہ انہوں نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررکھی ہے اوران کاملک میں بوٹینیکل گارڈنز لگانے کے حوالہ سے 34سالہ تجربہ ہے۔ ڈاکٹر رضا بھٹی کا کہنا تھا کہ میں اکثرایف نائن پارک جاتا ہوں۔

 ملک جاوید اقبال وینس کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے بھی ڈاکٹر رضا بھٹی کو آن بورڈ لیا ہوا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ پیپر ملبری کے سات ہزاردرخت کاٹے گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں کیا پتا کہ پیپر ملبری کے درخت کاٹے گئے ہیں یا کسی اورقسم کے درخت کاٹے گئے ہیں۔

اس دوران چیف جسٹس نے ڈپٹی ڈی جی انوائرنمنٹ سی ڈی اے عرفان عظیم خان نیازی کو روسٹرم پر بلایا اورسوال کیا کہ تصویریں دکھائیں کہ پیپر ملبری کے درخت ہی کاٹے گئے ہیں۔

 چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہمیں کیسے پتاچلے گا کہ ملبری کادرخت ہے یا کوئی دوسرا درخت ہے۔اس پر عرفان عظم نیازی کا کہنا تھا کہ میں تصویریں منگوالیتا ہوں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بتائیے رپورٹ میں کہ ان لوگوں کی نگرانی میں یہ کام ہوا، ادریس تھا یا اللہ دتہ تھا۔ اس موقع پر اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے رکن وقار زکریا نے پیش ہوکربتایاکہ کاٹے گئے درختوں میں 99فیصد سے زائد پیپر ملبری کے درخت تھے، ہم نے بھی درخواست کی تھی کہ اسلام آباد سے پیپر ملبری کے درختوں کو ختم کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پتا توچلے کہ صیح چیزیں کاٹیں یا غلط چیزیں کاٹیں۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جہاں تک پیپر ملبری کے درخت کاٹ رہے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، دوسری چیزیںنہ کٹ جائیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پیپر ملبری سے کیا ہوتا ہے، یہ لگائے کس نے تھے۔ عرفان عظیم خان کا کہنا تھا کہ وفاقی دارلحکومت کے قیام کے وقت 1970کی دہائی میں سی ڈی اے نے جہاز کے زریعہ بیج گرائے تھے، یہ بیچ چین سے منگوائے گئے تھے۔ عدالتی معاون سید حسن علی رضا کا کہنا تھا کہ 52لاکھ روپے میں 700میٹر رقبہ کا ٹھیکہ دیا گیا اورلکڑی بھی کنٹریکٹر نے لے جانی تھی۔ دوسرے عدالتی معاون سعد ممتاز ہاشمی کا کہنا تھا کہ درخت جڑ سے اکھاڑے گئے ہیں۔

 سید حسن علی رضا کا کہنا تھا کہ 1542پیپر ملبری درخت کاٹنے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سید حسن علی رضا سے سوال کیا کہ کاٹے گئے درخت شیشم اورکیکر کے تھے اس حوالہ سے کوئی ثبوت موجود ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ بلاتفریق کٹائی کی گئی ہے اوررولر پھیرا گیا ہے تواس جگہ پرکیا بناناچاہتے ہیں۔

 عرفان عظیم خان نے بتایا کہ سی ڈی اے کے پارکس ڈائریکٹوریٹ میں دیگر افسران کے علاوہ1500مالی ہیں، جبکہ انوائرمنٹ ڈائریکٹوریٹ میں دیگر افسران کے علاوہ 3000مالی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اتنے مالی ہیں توان سے کام کیوں نہیں کروایا، 4500مالی توفوج کی پتانہیں کتنی بتالین بن جائیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عرفان عظیم خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں جاتارہاہوں اس کا کیا مطلب ہے، پیشہ وارانہ انداز میں ایکٹ کریں، جھوٹ نہ بولیں، اسلام آباد آپ کی ذاتی پراپرٹی نہیں یہ ذہن سے نکال دیں، مکمل طور پر غیر پیشہ وارانہ طرز عمل ہے، ہم معاملہ سمجھنے کے لئے بیٹھے ہیں اورتقریر سننے کے لئے نہیں بیٹھے۔ عرفان نیاز ی کا کہنا تھا کہ وہ ایم ایس سی ایگریکلچر ہیں۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیدھا بولیں دن کے وقت گئے۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ شیشم کے کتنے درخت کاٹے۔اس پر عرفان عظم کا کہنا تھا کہ کوئی نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مالیوں کی فوج کو دو، چاردن لگادیتے۔

اس دوران ڈائریکٹر جنرل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی فرزانہ الطاف پیش ہوئیں تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ کوئی کام کی بات نہیں کریں گی توپھر بات نہ کریں۔ میاں عقیل افضل کا کہنا تھا کہ وہ بغیر پتوں کے پیپر ملبری کے درختوں کو پہچان سکتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کیا تھی۔ عرفان نیاز ی کا کہنا تھا کہ سات مختلف اقسام کے درخت لگائے گئے ہیں۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر آدمی آکردوباتیں کررہا ہے، کوئی بھی کام کی بات نہیں کرے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں آزاد ماہرین کی خدمات درکارہوں گی کیونکہ یہ سب سی ڈی اے ملازمین ہیں۔ عرفان نیازی کا کہنا تھا کہ جن درختوں کو کٹنا ہے ان پر نمبر لگے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے میاں عقیل افضل سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق کام صیح ہوا ہے کہ نہیں۔ اس پر میاں عقیل افضل کا کہنا تھا کہ 80سے90فیصد پیپر ملبری کے درخت ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کنٹریکٹر کا مفاد تویہ ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ کاٹ لے۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ساڑھے چارہزار مالیوں کو پاکستان کے ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے تنخواہ دی جاتی ہے، ہر چیز ٹیکس پیئر ہی کررہا ہے، شہریوں کو ملتا کیاہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ماہر کاتقررکرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹھیکیدارکا مفاد کچھ اورہوتا ہے ، محکمے اور زشہریوں کا مفاد کچھ اورہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اتنے نالائق ہیں کہ ہمیں ایک درخت کاٹنا نہیں آتا، ساڑھے چارہزار مالی بھرتی کئے ہوئے ہیں، دنیا درخت لگارہی ہے اورہم درخت کاٹ رہے ہیں۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہرپارک پبلک پارک ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ اگر چین میں بھی اسی طرح دمہ کامرض ہوتا ہے توپھر انہوں نے پیپر ملبری کادرخت ہمیں کیوں دے دیا۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کیوں خود درخت نہیں کاٹ سکتا، کیوں سی ڈی اے کا مالی یہ کام نہیں کرسکتا، بس اِدھر آئو اور تقریر کرو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کے مالی کی تنخواہ کتنی ہے۔ اس پر عرفان عظیم کی جانب سے بتایا گیا کہ سات، آٹھ ہزار پھر بتایا گیا کہ 20یا22ہزار ہو گی۔

 اس پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کیا کہ سی ڈی اے افسران کو مالیوں کی تنخواہ کا بھی نہیں پتا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مقررکردہ کم ازکم تنخوہ سے کم تومالیوں کی تنخواہ نہیں ہوگی۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے خلاف نہیں، ہم ماحولیات کاتحفظ چاہتے ہیں، درخت اس وقت کاٹ رہے ہیں جب درختوں پر پتے نہیں، درختوں کی کٹائی کے بعد اسلام آباد میں مٹی ہی اڑے گی۔ حافظ عرفات احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایف نائن پارک میں اب بھی 15ہزاردرخت لگائے گئے ہیں۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اتنے نازک مزاج ہیں کہ درخت کاٹ نہیں سکتے، ٹھیکیدار کاکردار مجھے سمجھ نہیں آتا، اتنے بڑے دفتر پالے ہوئے ہیں لوگوں کے کام نہیں آرہے۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کے ذہن میں ہے کہ ہم مالک ہیں اور ہماراکوئی احتساب نہیں ہوگا، ہم آپ کو جیل تونہیں بھیج سکتے، لوگوں کی ماحولیات کی حفاظت کے حوالہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔

 عرفان نیاز ی کا کہنا تھا کہ 58ایکڑ رقبہ پر6ہزاردرخت کاٹنے والے رہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صرف پیپر ملبری درختوں کی کٹائی کی جائے گی اور سی ڈی اے حکام وہاں موجود ہوں گے۔

 چیف جسٹس نے حافظ عرفات احمد چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی تجاویز دینا چاہیں تودیں کہ اب ہم درختوں کی کٹائی کے حوالہ سے یہ طریقہ اختیار کریں گے، ٹھیکے والا سسٹم قابل اعتماد نہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت کہ تین دن میں تجاویز دیں اس کے بعد ہم حکم جاری کریں گے۔

جبکہ بینچ نے فائنل کازلسٹ میں شامل چار کیسز کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے قراردیا کہ آج ذوالفقار علی بھٹوریفرنس کی سماعت ہے اس لئے مزید کیسز نہیں سن سکتے اوروکلاء اپنی مرضی کی تاریخیںلے لیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰچیف جسٹس آف پاکستانماحولیات
Comments (0)
Add Comment