ڈونلڈ ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر پر ڈبلیو ایچ او پہ اظہار تشویش کیوں ؟
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا کے پھیلاؤ پر چین کے خلاف سخت ایکشن۔ کیوں نہیں لیا۔۔جس کے نتائج دنیا کو بھگتنے پڑے ۔۔ہم ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں ۔۔۔ڈونلڈ ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر پر ڈبلیو ایچ او کا اظہار تشویش ۔۔تاہم فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل بھی کر دی
مضبوط اقتصادی طاقت کی جنگ ۔چین اور امریکہ آمنے سامنے ۔۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی بڑے بڑے فیصلوں کا اعلان کر دیا جس میں امریکہ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علیحدگی کا ہے۔آئیں اس کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں ۔
۔پہلی بار 2020 میں امریکہ نے (WHO) سے علیحدگی کا اعلان کیا جو عالمی سطح پر شدید بحث کا باعث بن گیااس وقت بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے کئی اہم وجوہات پیش کر رہی تھی ۔ امریکہ کا یہ اقدام عالمی صحت کے نظام، چین کے ساتھ تعلقات، اور امریکہ کے عالمی سیاست میں قیادت کے کردار کے حوالے سے ایک سنگین پیغام تھا۔
امریکہ نے سب سے پہلے COVID-19 کے بحران کے دوران WHO کی کارکردگی پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ امریکہ کے مطابق WHO نے ابتدائی طور پر اس وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں چین کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کی نرم رویہ اپنایا۔چین نے اس وائرس کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کیں، اور WHO نے اس پر مناسب تحقیقات شروع کرنے میں تاخیر کی۔ امریکہ نے WHO پر الزام لگایا کہ چین کے دباؤ میں آ کر عالمی سطح پر خطرے کی شدت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا، جس کے باعث وائرس عالمی سطح پر تیزی سے پھیلا۔ا مریکہ نے کئی بار ڈبلیو ایچ او اور چین پر مشترکہ مفادات کا الزام عائد کیا خاص اعتراض کیا کہ WHO نے چین کے ابتدائی ردعمل پر سوالات اٹھانے کے بجائے حمایوجہ سے دنیا کو صحت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا ۔ WHO کا چین کے ساتھ گہرا تعلق ۔ عالمی صحت کے مسائل پر شفافیت اور فوری ردعمل کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں فنڈنگ کا سب سے بڑا معاون امریکہ ہے جو اس کی مجموعی فنڈنگ کا 18 فیصد حصہ ڈالتا ہے ۔۔امریکہ نے موفق اختیار کیا ہے کہ WHO کی کارکردگی اور چین کے ساتھ تعلقات کے باعث وہ مزید فنڈز فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں
اپنے تحفظات میں امریکہ نے اظہار کیا کہ WHO نے امریکی مفادات کو نظرانداز کیا اور چین کی جانب سے صحت کے بحران پر قابونہ پانے جیسی ناکامیوں پر غور نہیں کیا جس کے باعث مالی معاونت روکنے کا فیصلہ کیا صدر ٹرمپ نے عالمی صحت کے بحران سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی قیادت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ امریکہ نے اپنی پالیسیوں کے مطابق عالمی صحت کے امور پر فیصلہ کرنا شروع کیا۔ امریکہ کا موقف تھا کہ وہ کسی عالمی ادارے کی پالیسیوں کے تابع نہیں رہنا چاہتا، بلکہ اپنی ضروریات کے مطابق اقدامات کرے گا۔
امریکہ کا یہ فیصلہ سیاسی وجوہات کے تناظر میں بھی دیکھا گیا ہے بعض حلقوں نے دعویٰ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام چین کے خلاف امریکہ کی بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش کا حصہ تھا۔۔ 2021 میں جو بائیڈن نے امریکہ کے 46 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعدفیصلے کو واپس لیتے ہوئے WHO کے ساتھ دوبارہ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ بائیڈن نے عالمی صحت کے نظام میں امریکہ کی قیادت کو دوبارہ سے مستحکم کرنے اور WHO کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر صحت کے بحرانوں سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکہ کا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علیحدگی کافیصلہ ایک پیچیدہ اور متنازع اقدام ہے، جس کے پشت پر عالمی سیاست، صحت کے بحرانوں کے انتظام اور چین کے ساتھ تعلقات جیسے اہم عوامل کارفرما ہیں ۔ اگرچہ امریکہ نے اپنے اس فیصلے کو عالمی سطح پر تنقید کا سامناہے
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے امریکہ کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے ڈبلیو ایچ او کے مطابق عالمی صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بین القومی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے امریکہ کا الگ ہونا عالمی صحت کی پالیسیوں پر منفی اثرات مرتب ہونگے گے تاہم صحت کے بحرانوں سے نمٹنے کی کوششوں میں خلل پڑے گا۔امریکہ ڈبلیو ایچ او کا سب سے بڑا مالی معاون ہے امریکہ کی فنڈنگ رکنے سے ڈبلیو ایچ او کی سرگرمیوں اور صحت کے پروگراموں پر منفی اثرات ہونگے جانا پڑے ڈبلیو ایچ او نے امریکہ کی شراکت داری کی تعریف کرتے ہوئے کہا دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں امریکہ کی حمایت کو سراتے ہیں اور ان کی شراکت داری ہمیشہ اہم کردار ادا کرتی رہی ہے امریکہ کا تعاون عالمی سطح پر صحت کے بحرانوں سے نمٹنے میں کامیاب رہا ہے اسی کردار کے پیش نظر ڈبلیو ایچ او نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرے اور عالمی صحت کے شعبے میں اپنی قیادت …