گستاخیاں
خالد مجید
وہ خاموشی سے میرے پاس آ کے بیٹھ گیا اور بڑے انہماک سے مجھے دیکھتا رہا میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ مضطرب تھا جیسے مجھے کچھ کہنا چاہتا ھو مگر خاموش بیٹھا رہا ابھی ابھی میں اور سلیم ممتاز چوہدری اسی میز پر آ کر بیٹھے تھے اور چاول کھانے میں مصروف ھو گے نہ ھم نے کسی غیبت کی نہ کسی کو یاد کیا پھر پتہ نہیں ھماری باتوں میں ۔۔۔۔برادر مشتاق منہاس کا زکر کیسے آ گیا اور پھر انھیں الیکشن جیتنے کی دعا بھی دے دی ۔۔۔ حالانکہ میری ن لیگ تو حنیف عباسی سے شروع ھو کر ان پر ھی ختم ھو جاتی ھیے، اس دوران وہ چاۓ پی کر مجھے دیکھ رہا تھا پھر اس کا تجسس اس کا اضطراب اس کے ہونٹوں پر آ گیا
کیا بات ہے آج کل تم سیاسی کالم نہیں لکھتے۔ یار سیاست تو رضیہ کی طرح ھیے جو غنڈوں میں پھنس گی ھیے اس لیے اپنے لوگوں کے مسئلے اپنے لوگوں کے مسائل لکھ لیتا ہوں اوروہ باتیں جو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں انہیں اخلاقی باتیں سمجھانا چاہتا ہوں
سیاست ، میں بیان بازی بھی سیاسی ھوتی ھیے ایک بیان آتا ھیے پچھلے دور میں کرپشن عام ھوا کرتی تھی اب چھپ کر ھوتی ھے
سیاست میں ایک طرف کہاجاتا ہے کہ شرح ترقی میں اضافی ھوا ھیے اور وہیں پہ بات بھی بیان بنتی ھیے کہ مسلسل مندی کا رجحان ہے اب خود سوچو ان لوگوں کے بارے میں لکھوں کہ ریل کا حادثہ ہوتا ہے کتنے ہی لوگ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں زندگی کا متبادل کیا پندرہ لاکھ روپے ہے یہ زخموں سے چور ٹوٹے پھوٹے مریضوں کو پیسے مل جائیں گے خدا خبر وہ زندگی بھر چل بھی سکیں گے کہ نہیں
کراچی سے گاڑی چلی تو خراب تھی مگر روکی نہیں گئ کہ اس میں عام لوگ بیٹھے تھے جبکہ جہانگیر ترین کی شوگر مل کا آڈٹ روکنے کے لیے ہائی کورٹ نے ایف بی آر کو کہہ دیا ہے کہ آڈٹ نہ کیا جاۓ ایسی باتیں لکھوں
زرا ظلم دیکھو اسلام کے بغل میں بہارہ کہو کے سرکاری سکول میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ہے 25 بچے بے ہوش ہوگئے تھے سیاسی دعوے تو وافر بجلی پیدا ھونے کے کیے جا رھیےھیں گرمیوں کے موسم میں ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ اسکول کالجوں کو چھٹیاں دے دی جاتی تھی کرونا سے نظام زندگی یکسر تبدیل ھو گیا ھیے ، اچانک سو فیصد حاضری کا اعلان کر دیا گیا ھیے
کوتائ اور غلطی میں فرق ھوتا ھیے جب پٹری جگہ جگہ سے خراب ہے تو اس پر گاڑی کیوں چل رہی ہے انسانی زندگیوں کے ساتھ کیوں کھیلا جا رھا ھیے رہی بات سیاست کی تو دونوں طرف سے بیان داغے جاہیں گیے
جو اس حادثے میں جاں سے چلے ان کے بچوں کا کیا بنے گا رشتے جو بچھڑ گے ان کا خلا کیسے پورا ھو ۔۔۔۔۔۔ کیا مداوا صرف دس پندرہ لاکھ سے ھو جاۓ گا ۔۔۔۔
اے مسند اقتدار سے چمٹے سرکاری اور سیاسی لوگو راولپنڈی میں چلنے والی میٹرو بس کا ٹریک مرمت کراؤ ، ایسا نہ یہاں بھی لاپروائی ، کوتائ اور غلطی انسانی زندگیوں سے کھیل جاۓ اور پھر ایک دوسرے کے خلاف نیاگن بازی کے میزائل چلنے شروع ھو جاہیں اور اب روش کو بھی ختم ھونا چاہیے کہ کسی گزشتہ حکومت کا کام کوئ موجودہ حکومت نہیں سراہیے گیکون سی سیاست کی بات کروں جہاں کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر طرف یوٹرن کا مینا بازار لگا پہلے وقتوں میں اس کو زبان سے پھرجانا کہا جاتا تھا 1960 سے پہلے تو نکاح نامہ نہیں تھا اس وقت اسی زبان سے بچوں اور بچیوں کی شادیاں کی جاتی تھیں مجال ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان سے پھر جائے وقت عجیب ہو گیا
حکومت نے بجٹ پیش کرنا تھا سو پیش کردیا لیکن بتاؤ اس دن کیا ہوا کوئی مہذب معاشرہ نظر آیا تمہیں کوئی شاہستگی دیکھی تم نے کوئی شائستہ لہجہ سننے کو ملا تھا تمہیں اسمبلی کو قانون ساز ادارہ ہونا چاہیے وہ مچھلی بازار بنا رہا نہ کسی کی عزت کا خیال نہ کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ حد تو یہ ھیے عورتوں کے سامنے کیا اپنی اپنی تربیت دکھائ تھی سب نے ، تماشہ بنا کے رکھ دیا سب نے دنیا کے سامنے
اور پھر آگے دیکھ لو حکومتی اراکین سینہ پھلا پھولا کے کہہ رھیے ہیں ھم بجٹ منظور کرا لیں گیے اپوزیشن کہہ رھی ھیے ھم نے بجٹ مسترد کر دیا ھیے
پورے تین سال میں کوئی ایسا وزیرخزانہ نہیں بنایا جا سکا جو الیکشن جیت کے اسمبلی آیا ہو پتہ نہیں وہ دو سو لوگوں کی ٹیم کیا ھوئ جس کے دعوے کیے جاتے تھے مستعار وزیر خزانوں سے ھی کام چلایا جا رھا ھیے
میرا دکھ تو یہ ہے کہ میرے تمہارے ٹیکس کے پیسوں سے سے بننے والی بجٹ کی کاپیاں کسی بے دردی سے ایک دوسرے پر پھینکی گئی ہیں کاغذوں کو ریزہ ریزہ کرکے کے بکھیر دیا گیا ہے ، میری بلا سے کسی کی آنکھ پھوٹ جاۓ کسی کا سر پھٹے میرے ملک کے کروڑوں لوگوں کا پیسہ ان مٹھی بھر لوگوں نے کس بے دردی سے پیروں تلے روندا ہے کچھ تو ان کو خیال ہونا چاہیے ہم بہت محنت سے پیسہ کماتے ہیں ،
رشوت ، جھوٹ مکر فریب گولی گالی کا بازار گرم ھیے ۔۔۔۔ اور سب غیر مہذب حرکتیں کرنے والے "معزز رکن اسمبلی ” ھی کہلائیں گے لیکن بجٹ اجلاس کا شکریہ سب "تربیت ” اور "اصلیت”کا اندازہ تو ھوا !
یہ ڈرامہ نہیں تو کیا ھیے تین دن اسمبلی مچھلی بازار بنا رہا اور چوتھے دن سب اچھا ھیے سب شیر و شکر ھو گیے سب ایک دوسرے کو برداشت کر رہے تھے ۔۔۔۔۔
میرے وطن کے استحصالیو یہ پھر ھمارے خلاف ایک اور اکٹھے ھو گۓ ھیں ۔