چین، مفاہمت ، مذاکرات اور تعاون کے ذریعے دنیا میں قیامِ امن کی خاطرعملی طور پر مستعد و سرگرم

روس یوکرین تنازع کے نتیجے میں دنیا توانائی کے جس بحران کا شکار ہوئی ہے

تحریر: سارا افضل

 

چین، مفاہمت ، مذاکرات اور تعاون کے ذریعے  دنیا میں قیامِ امن کی خاطرعملی طور پر مستعد و سرگرم  

اس سال کے آغاز سے ہی عالمی افق پر چین کی جانب سے امن کے قیام کی کوششیں اپنے رنگ دکھا رہی ہیں ۔ چین کی جانب سے ، ہر فورم پر ایک مشترکہ خوشحال مستقبل تشکیل دینے اور  تنازعات کی شدت کو کم کرنے کے لیے تعاون ، مذاکرات ، اشتراک ، دوستی اور تحمل کے ساتھ معاملات سے نپٹنے کا تقاضا کیا جاتا رہا ہے اور  اس سلسلے میں چین مستعدی کے ساتھ سرگرم عمل بھی نظر آ رہا ہے ۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان چلی آرہی پرانی دشمنی کو دوستی میں بدل کر دونوں ممالک کے درمیان عملی طور پر نئے  تعلقات استوار کرنے  اور ترقی کے سفر میں مشترکہ  تعاون کا آغاز  کروانے کے سلسلے میں بیجنگ کا مثبت کردار نہ صرف تاریخی ہے بلکہ ان دونوں ممالک کے درمیان ناکام ثالثی مذاکرات کی تاریخ کے تناظر میں یہ ” غیر متوقع” بھی رہا ۔

اس کے فوراً بعد  چینی صدر کا دورہِ روس اور سلامتی کونسل کے دو نوں بڑے  رکن ممالک کے سربراہان کی جانب سے جاری کیا گیا ” کانسیپٹ پیپر "عالمی منظر نامے پر ایک اور ” ہائی لائیٹ ” بنا ۔ روس یوکرین کے درمیان جاری تنازع نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔

حالانکہ  دنیا کا کوئی اور ملک  براہِ راست ان  دونوں ممالک کے گولہ بارود کی زد میں نہیں آیا ، لیکن آج کی دنیا میں تمام ممالک ، وسائل اور معیشت کا اشتراک کرتے ہیں اور ایک جگہ بھی رکاوٹ آجائے تو تمام صنعتی و سپلائی چینز متاثر ہوتی ہیں جس کا نتیجہ دگرگوں معیشت کی صورت  میں سامنے آتا ہے۔

 روس یوکرین تنازع کے نتیجے میں دنیا توانائی کے جس بحران کا شکار ہوئی ہے، خاص طور پر یورپی ممالک کو اس بحران کے باعث جس قدر سخت سردیوں کو جھیلنا پڑا اس نے ان کے ہوش اڑا دیئے ۔ توانائی کے اس بحران کے نتیجے میں مہنگائی اور  بےروزگاری کا جن بے قابو ہواجس  کے نتیجے میں آئے دن کے  احتجاج اور  ہڑتالیں دنیا کے ہر ملک میں معمول بن گئی ہیں ۔

یہ ایک ” چین ری ایکشن ” ہے جس کو بروقت نہ روکا گیا تو اس کے اثرات ایک بڑی تباہی کی صورت میں سامنے آئیں گے اور اس کا سامنا کسی ایک ملک کو ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کو ہوگا۔

یہی وہ آگہی ہے جو چین ہر پلیٹ فارم پر دنیا کو دے رہا ہے اور اسی کے لیے وہ تمام پرانی باتیں بھلاکر نئے تعلقات نئی ترقی اور ایک نئی پر امن دنیا کے لیے  ایک بڑے ذمہ دار ملک کی طرح بے حد مستعدی سے  تعمیری کردار ادا کررہا ہے ۔ سال کے آغاز سے اب تک کی تیسری بڑی پیش رفت اس وقت خبروں میں نمایاں ہے اور وہ ہے فرانسیسی صدر ایمینوئیل میکرون کا دورہِ چین ۔

 اس موقع پر بھی چینی صدر نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں کشادہ دلی کے ساتھ امن کے قیام کی خاطر فرانس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا کہ چین ، امن مذاکرات اور سیاسی تصفیے کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے اور تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ وہ  سمجھ داری وتحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو بحران کو مزید خراب کرنے یا بے قابو کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

چین کی جانب سے جوہری ہتھیار وں کا استعمال نہ کرنے ،جوہری جنگ نہ کرنے  اور کسی بھی صورت میں  حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ جوہری بجلی گھروں یا دیگر سویلین جوہری تنصیبات پر حملے نہ کرنے  کے مطالبے میں فرانس نے چین کی مکمل حمایت کا اظہار کیا کیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں پر عمل کرتے ہوئے "جتنی جلدممکن ہو امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے” کی بھی  حمایت کی ۔

بین الاقوامی تعلقات میں ملٹی پولر ورلڈ  اور عظیم تر جمہوریت کے مضبوط حامیوں کی حیثیت سے ، چین اور فرانس اختلافات سے آگے بڑھ کر ، ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی مجموعی سمت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں اس ذمہ داری کا احساس ہے ۔

دیکھا جائے تو چین اور یورپ دنیا کی دو بڑی طاقتیں اور  بڑی  مارکیٹس ہیں اور چین- یورپ تعلقات  میں توازن اور استحکام  دونوں اطراف کی فلاح و بہبود اور بڑے پیمانے پر دنیا کے استحکام اور خوشحالی کا باعث ہوگا ۔ اسی لیے یورپی یونین کے بڑے رکن ملک فرانس کے صدر سے ملاقات کے موقع پر  شی جن پھنگ نے چین-

یورپی یونین کے ساتھ مل کر کام کرنے تبادلوں اور مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے، چین اور یورپی یونین کے تعلقات کی بنیاد  کے طور پر دوستی اور تعاون کو مضبوط بنانے کی توقع ظاہر کی ۔

فرانسیسی صدر کا مثبت جواب اس بات کاغماز ہے کہ  فرانس اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کام کرنے کا حامی ہے اور محاذ آرائی، تقسیم اور گروہی  دشمنی کو ہوا دینے کا مخالف ہے۔ اس کے بجائے، فرانس نے بڑے ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم رکھنے کے لئے اتحاد اور تعاون پر زور دیاہے۔ فرانس کے صدر نے یہ بھی کہا کہ فرانس ، یورپ میں دیرپا امن کے حصول کے لیے سیاسی مذاکرات کی بحالی اور سفارتی ذرائع سے بحران کا حل چاہتا ہے ۔

 ان دونوں ممالک کی جانب سے عالمی مسائل کے حل کی خاطر  ایک جیسی سوچ اور تعاون کا ایک سا جذبہ یہ امید بڑھاتا ہے کہ چاہے دنیا کے اکا دکا ممالک  ، مسائل کو بنانے ، پھیلانے اور بگاڑ کر ایک آگ بھڑکانے کی جتنی بھی کوشش کر لیں امن کی خواہش  ذمہ دار رویہ رکھنے والے تمام ممالک کی مشترکہ خواہش  ہے اور یقیناً یہ سوچ جتنی فروغ پائے گی دنیا میں امن و ترقی کے امکانات اتنے ہی روشن ہوں گے ۔

ایرانچینسعودی عربمفاہمت
Comments (0)
Add Comment