چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے، سپریم کورٹ

چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے، سپریم کورٹ 

کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں؟ سچ بتائیں چیئرمن وائلڈ لائف بورڈ کے نوٹی فکیشن کے پیچھے کون ہے؟ کس کے کہنے پر نوٹیفیکیشن جاری ہوا، چیف جسٹس کا سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل پر برہم

اسلام آباد:   سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک اور چیئرمن وائلڈ لائف بورڈ کو ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہاہے کہ چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور نعیم اختر افغان نے کیس پر سماعت کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سماعت کے آغاز پر سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں؟ سچ بتائیں چیئرمن وائلڈ لائف بورڈ کے نوٹی فکیشن کے پیچھے کون ہے؟ کس کے کہنے پر نوٹی فیکیشن جاری ہوا؟

اس پر سیکرٹری کابینہ نے جواب دیا کہ چیئرمن وائلڈ لائف کی تبدیلی کے احکامات وزیر اعظم نے جاری کیے ہیں، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیکرٹری کابینہ نے الزام وزیر اعظم پر لگا دیا ہے، سیکرٹری کابینہ نے بھائی کو بچانے کے لیے الزام وزیر اعظم پر عائد کردیا، انہوں نے وزیر اعظم کو بس کے نیچے دھکا دے دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مارگلہ ہلز سے متعلق حکم کے بعد سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا، فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا پھر یہ پروپیگنڈا کون کر رہا ہے؟ مزید دریافت کیا کہ آپ کے بھائی لقمان علی افضل کدھر ہیں، سیکریٹری کابینہ نے جواب دیا کہ نہیں معلوم وہ کدھر ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پروپیگنڈا کی جنگ سپریم کورٹ کے خلاف کیوں چل رہی ہے؟عدالت نے وکیل مخدوم علی خان اور سلمان اکرم راجا کی عدم حاضری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سینئر وکیل حکم امتناع لینے دو منٹ میں آجاتے ہیں، مگر حکم امتناع کے بعد سینئر وکیل نظر نہیں آتے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کس کی ملکیت ہے، مارگلہ نیشنل پارک اللہ کا تحفہ ہے۔

 

سپریم کورٹ نے چیئرمین کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات دیکھے ہیں؟ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات پہلے نہیں دیکھے تھے لیکن جب معاملہ میرے علم میں آیا تو ایکشن لیا۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ساری شاہراہ دستور پر نجی سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں، چیئرمین سی ڈی اے کب ایکشن لیں گے،؟ کیا جب عوام ہاؤسنگ سوسائٹی سے لٹ جائیں گے پھر سی ڈی اے ایکشن لے گی؟ اس پر چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائیٹی خیبر پختونخواہ میں آتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی میں فرد جرم عائد کریں؟ اسلام آباد میں کئی جگہوں پر ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں۔بعد ازاں وکیل نجی ہاؤسنگ سوسائٹی شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ہماری سوسائٹی خیبرپختونخوا میں ہے، ہماری ہاؤسنگ سوسائٹی کے درجنوں اشتہارات اسلام آباد میں لگے ہیں، سی ڈی اے کے افسر نے رابطہ کرکے سوسائٹی کے مالک سے اسپانسر مانگا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سی ڈی اے کے کس افسر نے رابطہ کیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ یہ میرے علم میں نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مارگلہ ہلز میں آپ سوسائٹی کیسے بنا رہے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کی اپنی ملکیتی اراضی ہے اس پر منصوبہ شروع کیا، عدالت نے دریافت کیا کہ زمین کی ملکیتی دستاویزات کدھر ہیں؟ وکیل ہاؤسنگ سوسائٹی نے کہا کہ ملکیتی دستاویزات میرے مؤکل کے پاس ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل کو ہدات کی کہ شاہ صاحب، اپنے مؤکل کو بلالیں۔بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ 2018 میں بھی مارگلہ ہلز کا کیس چلا، لوگوں کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے پھر یہ کیس دباؤ دیا گیا، مارگلہ ہلز کے معاملہ پر وزارت داخلہ، وزارت کابینہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور سی ڈی اے ملوث ہیں۔

بعد ازاں وکیل شاہ خاور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے مؤکل ڈیڑھ گھنٹے میں سپریم کورٹ پہنچ جائیں گے، میرے مؤکل صوابی سے نکل آئے ہیں۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے مؤکل کا نام کیا ہے، وکیل نے بتایا کہ میرے مؤکل کا نام صدیق انور ہے، چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ اپنے مؤکل کا پورا نام بتائیں، وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کا پورا نام کیپٹن صدیق انور ہے۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ کے مؤکل کو بھی توہین عدالت کو نوٹس جاری کریں؟ آپ کے مؤکل نے اپنے ایڈریس میں جی ایچ کیو کیوں لکھا ہے؟ آپ کے مؤکل نے نام کے ساتھ ریٹائرڈ بھی نہیں لکھا، کیا آپ کا مؤکل تاثر دے رہا ہے کہ ہاؤسنگ منصوبہ فوج کا ہے؟اس ملک میں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے،اسی کے ساتھ عدلت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس ملک میں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ساری حکومت آج عدالت میں کھڑی ہے لیکن معلوم کچھ نہیں، نیشنل پارک کو مجموعی طور پر بچانا ہے، اٹرانی جنرل نے کہا کہ خوبصورتی ساری مارگلہ ہلز کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک اب لینڈ مافیا کے حوالے ہے، سپریم کورٹ پر سب سے پہلے ہم نے انگلی اٹھائی تھی، 10،10 سال سے خلاف قانون بیٹھنے والوں کو واپس بھیجا، ڈیپوٹیشن والوں کو واپس کرنے پر بھی شور مچا، کہا گیا کہ چیف جسٹس نے یہ کردیا وہ کردیا، یہاں ذاتی حملہ کرا لو، گالی گلوچ کر الو بس، میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی لیکن اگر سیکریٹری کابینہ نے سچ نہ بولا تو نتائج بھگتیں گے، زندگی میں کبھی ایک پلاٹ نہیں لیا، جو خریدا اپنی کمائی سے خریدا۔انہوں نے کہا کہ ایک کیمرہ پکڑو اور ہوگیا یوٹیوب چینل شروع، ہر بندہ یہاں ایک ایجنڈے پر چل رہا ہے، چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے، ہمارے پاس کوئی میڈیا ٹیم نہیں جو دفاع کر سکے۔

ایک بار پھر عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس کو درخواست آئی کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں،

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تصوراتی بات لگتی ہے، وزارت ہاؤسنگ سی ڈی اے کے ماتحت ہے یہ بات سمجھ بھی آتی ہے لیکن پلاننگ اور ہاؤسنگ کا وزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے؟ ہم تو کہہ رہے ہیں سی ڈی اے کو بھی وزارت داخلہ سے نکال دیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر ایسی بات ہے تو وزارت تعلیم کو وزارت ریلویز میں ڈال دیں، کیوں نہ وزارت داخلہ کو نوٹس کریں؟ سارا گند ہی ختم ہو جائے گا، پارلیمان کس لیے ہوتا ہے؟ پارلیمان میں ایسے موضوعات پر بحث کیوں نہیں ہوتی، اگر ایسا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کردیں۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کا نہیں آرٹیکل 99 کے تحت رولز آف بزنس بنتے ہیں جس سے معاملات چلائے جاتے ہیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات تو کر سکتے ہیں؟ کوئی طاقتور آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا سی ڈی اے کو میری وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پلاٹس وغیرہ کے بھی معاملات ہوتے ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے چیئرمین سی ڈی اے سے استفسار کیا آپ کی کیا رائے ہے، کیا سی ڈی اے کو وزارت داخلہ کے ماتحت رہنا چاہیے؟ چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کو وزارت داخلہ سے عملدرآمد کرنے کے لیے پاور مل جاتی ہے، پولیس اور انتظامیہ بھی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کیا کہ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے؟ آپ اتنے اہل نہیں ہیں کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروا سکیں؟ اگر ایسی بات ہے تو ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو پولیس پکڑ لے گی، جرمنی، فرانس، امریکا، بھارت سمیت کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہو رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رولز آف بزنس کے تحت فیڈرل گورنمنٹ ڈویژنز کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کرتی رہتی ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰسپریم کورٹ آف پاکستانمارگلہ ہلز نیشنل پارکموسمیاتی تبدیلی
Comments (0)
Add Comment