اسلام آباد (نیوز پلس) وفاقی دارلحکومت اسلام آ باد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والے کا مقابلہ کرتا ہے۔خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔تفصیلی تحریری فیصلہ آج جاری کیا گیا جو 169 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم کی جانب سے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنائی گئی سزائے موت کے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کر کے لائیں تاکہ سزا پر عمل درآمد کرایا جا سکے، پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، کور کمانڈرز اس میں ملوث نہیں تھے تو انہوں نے ایک شخص کو غیر آئینی اقدام سے کیوں نہیں روکا؟پاک فوج کے حلف میں انہیں سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کا کہا گیا ہے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔فیصلے کے مطابق جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا۔