اسلام آ باد (نیوز پلس)اسلام آ باد میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت کا حکم دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آ باد میں موجود خصوصی عدالت میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔عدالت میں سماعت کے بعد 3 رکنی بینچ نے 2 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت کا حکم دے دیا۔۔خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا جبکہ اس پر ایک جج نے اختلاف کیا۔ معزز عدالت نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوتا ہے، تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔ قبل ازیں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران عدالت نے استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام کیس میں شامل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔استغاثہ نے عدالت میں موٗقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز کو بھی شریک ملزم بنایا جائے۔خصوصی عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، آپ نے ترمیمی شکایت داخل کرنے سے متعلق وفاقی کابینہ کی منظوری لی؟وکیل استغاثہ علی باجوہ نے جواب دیا کہ سیکریٹری داخلہ کو 12 دسمبر کو خط لکھا تھا۔عدالت نے ہدایت کی کہ ہمارے سامنے اس سے متعلق کوئی درخواست نہیں، آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں۔
وکیل استغاثہ علی باجوہ نے کہا کہ ہم 2 مزید گواہان پیش کرنا چاہتے ہیں۔جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ آپ استغاثہ ہو کر ملزم کے دلائل دے رہے ہیں، آپ پرویز مشرف کی بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟وکلائے استغاثہ علی باجوہ اور منیر بھٹی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے۔عدالت نے سماعت کے دوران متعدد بار ہدایت کی کہ استغاثہ اپنے دلائل شروع کرے۔وکیل استغاثہ علی باجوہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیئر ٹرائل کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھنا ہے۔پرویز مشرف کے سابق وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں بولنے کی اجازت مانگ لی۔عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ ہم آپ کو بولنے کی اجاز ت نہیں دے سکتے، آپ پہلے سپریم کورٹ سے اپنے فیصلے پر ریویو کرائیں، یہ پیچیدہ مقدمہ ہے، آپ کو اجازت نہیں دے سکتے، البتہ آپ رضا بشیر کی معاونت کر سکتے ہیں۔جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ اشتہاری کا کوئی حق نہیں ہوتا جب تک وہ عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کرے۔جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ 100 فیصد بد دیانتی کر رہا ہے۔پرویز مشرف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف کو 342 کا بیان دینے کا ایک اور موقع دیں۔جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ عدالت نے موقع فراہم کیا، اب وہ وقت گزر چکا ہے، آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں، آپ 342 کا بیان دیں، آپ کو سن لیا،” آپ کا شکریہ”۔واضح رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف اس وقت دبئی میں ہیں، جہاں ان کی طبیعت ناسازی کے باعث ہسپتال بھی منتقل کیا گیا تھا۔آج دیے گئے فیصلے پر پرویز مشرف کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے، تاہم اگر عدالت عظمیٰ بھی خصوصی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مجرم کی سزا کو معاف کرسکیں۔