پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشستوں میں اضافے کی تجویز کی مخالفت

 پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشستوں میں اضافے کی تجویز کی مخالفت

 

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں نئے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ مستقل نشستوں میں کوئی بھی اضافہ 15 رکنی ادارے کو مفلوج کر دے گا اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے ارکان کی اکثریت کو ادارے میں خدمات کی فراہمی سے روک سکے گا۔

 اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ روز سلامتی کونسل میں اصلاحات کے مقصد سے تعطل کا شکار بین الحکومتی مذاکرات(آئی جی این) میں مندوبین کو بتایا کہ سلامتی کونسل کی توسیع میں مساوی نمائندگی کو فروغ دیا جانا چاہیے، نہ کہ اس سے نئی تاریخی ناانصافی پیدا ہو۔پاکستانی مندوب ایشیائی، افریقی، لاطینی امریکی، کیریبین اور بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ممالک کے گروپ کی طرف سے ایک تجویز پر بحث میں حصہ لے رہے تھے، جسے ایل 69 ماڈل کہا جاتا ہیاور جس کا مقصد سلامتی کونسل کی تنظیم نو کرنا ہے۔

 پاکستانی مندوب نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ مستقل رکنیت ہی سلامتی کونسل کے مفلوج ہونے کی وجہ ہے اور ایل 69 ماڈل سے ہمارا بنیادی مسئلہ مستقل نشستوں کی مجوزہ توسیع ہے۔

سلامتی کونسل اس وقت پانچ مستقل ارکان پر مشتمل ہے جن میں برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکا شامل ہیں اور 10 غیر مستقل ارکان2 سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے ایل 69 ماڈل کی مخالفت کرتے ہوئی تجویز پیش کی کہ جو بھی ملک اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل میں مزید توسیع کا خواہاں ہے، اسے جنرل اسمبلی کے متواتر انتخابات کے جمہوری عمل کے ذریعے ایسا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ایل 69 ماڈل کی ایک شق کیتحت بعض معاملات کو ایک مخصوص مدت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض ریاستیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم پر ان معاملات پر بحث مباحثہ کو اس مدت کے دوران روک کر اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

 پاکستانی مندوب منیر اکرم نے یونائٹنگ فار کنسنسس(یو ایف سی) گروپ کی تجویز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یو ایف سی اقوام متحدہ کی عمومی رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کوزیادہ نمائندگی والا کرنے اور جوابدہ بنانے کا سب سے عملی طریقہ فراہم کرتا ہے۔

اقوام متحدہپاکستانسلامتی کونسل
Comments (0)
Add Comment