پاکستان میں بدامنی پھیلانے کا زیادہ ہاتھ غیر قانونی تارکین وطن کا ہے، نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے افغان عبوری حکومت کو دوٹوک الفاظ میں مطالبہ کرتے ہوئےکہا ہے کہ افغان عبوری حکومت پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث افغانستان میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستنایوں کو پاکستان کے حوالے کرے ، افغان عبوری حکومت آنے کے بعد پاکستان میں 60 فیصد دہشت گردی بڑھی اور ملک میں بدامنی پھیلانے کا زیادہ ہاتھ غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ہمسائیگی ، مذہب ، اخوت اور بھائی چارے کا گہرا رشتہ ہے۔گزشتہ چار دہائیوں میں افغانستان کے لئے جس ایثار اور اخوت کامظاہرہ ریاست پاکستان اور پاکستان کے عوام نے کیا ہے وہ اس کاعملی نمونہ ہے۔ جب بھی افغانستان پر کوئی بھی افتاد پڑی، پاکستان کی حکومت اور عوام نے ان کی بھرپور مدد کی اور ہر طرح سے ان کا دردبانٹا۔ پاکستان نے گزشتہ 44 برس سے 40 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہاکہ اور محدود وسائل کے باوجود نہایت خندہ پیشانی سے اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ نبھایا۔ اس ضمن میں عالمی ادارہ کی محدود اور قلیل امدادپاکستان کی مہاجرین کو چار دہائیوں پر محیط معاونت کا عشر عشیر بھی نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگست 2021 میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد ہمیں یہ قوی امید تھی کہ افغانستان میں دیر پا امن قائم ہو گا۔ باہمی تعاون سے دونوں ریاستیں ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں استوار کریں گی۔ پاکستان مخالف گروہوں خصوصاً تحریک طالبان پاکستان کےخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور ان کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جائے گی لیکن بد قسمتی سے عبوری افغان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60فیصد اور خود کش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا۔پچھلے 2 سالوں میں 2267 معصوم پاکستانی شہریوں کی جانیں اس اندوہناک خونزیری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جس کے ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہیں جو افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کررہےہیں۔ اس عرصہ میں خود کش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ اب تک 64 افغان شہری انسداد دہشت گردی کی مہم کے دوران پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑتےہوئے ہلاک ہوئے۔ یہ تمام حقائق افغان حکام کے علم میں ہیں ۔وزیراعظم نے کہا کہ فروری 2023 سے تواتر کے ساتھ ہر 15 دن بعد پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت کو احتجاجی مراسلوں میں افغانستان سے منسلک دہشت گرد حملوں کی مکمل تفصیلات مہیا کی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی جولائی 2023 میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بھی افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے مراکز اور اس کی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں اضافے کا واضح ذکر کیاگیا ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان نے دنیا بھر میں افغانستان اور افغان عوام کی بھرپور حمایت اور وکالت جاری رکھی اوراہم افغانستان کی صورتحال اور افغان عوام کو درپیش مشکلات کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کراتے رہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان نے افغانستان کو تجارت اور درآمد کے حوالے سے انتہائی غیر معمولی مراعات دیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے صبر، فراخ دلی اور مصالحت پسندی کی قدر نہ کی گئی اور افغان عبوری حکومت نے افغانستان سے اٹھنے والی پاکستان مخالف دہشت گردی کے خلاف کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کئے ۔ آخر کار فروری 2023 میں ایک دہشت گرد حملے میں 100 سے زائد معصوم افراد کی شہادت کے بعد وزیر دفاع کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل تھے ۔
اس وفد نے افغان عبوری حکومت کو پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتےہوئے پاکستان یا تحریک طالبان پاکستان میں سے ایک کو چننے کا دو ٹوک عندیہ دیا۔ اس کے بعد بھی سیاسی، سفارتی ، فوجی ، رسمی اور غیر رسمی ذرائع سے افغان عبوری حکومت کو افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کاقلع قمع کرنے کا واضح پیغام دیاجاتا رہا۔ افغانستان میں موجود پاکستان کو مطلوب سرکردہ دہشت گردوں کی فہرست بھی افغان عبوری حکومت کے حوالے کی گئی ، افغان عبوری حکومت کی بارہا یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ چند مواقع پر تو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے واضح ثبوت بھی سامنے آئے۔ اس پس منظر میں بھی کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی بجائے افغان حکومت نے متعدد بار یہ مشورہ دیاکہ پاکستان کو اپنے اندرونی حالات پر توجہ دینی چاہیے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ افغان حکومت کے اس رویے اور عدم تعاون کے بعد اب پاکستان نے اپنے داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے حالیہ اقدامات نہ تو غیر متوقع اور نہ ہی حیران کن ہیں۔ پاکستان میں بد امنی پھیلانے میں ایک بڑا کردار غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔ اس لئے ریاست پاکستان نے ان افراد کو یکم نومبر سے واپس اپنے ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں غیر ملکی غیر قانونی طورپر مقیم ہے جن میں اکثریت افغان شہریوں کی ہے۔
دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث اکثر افراد کاتعلق ان ہی غیر قانونی تارکین وطن سے ہے۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان نے اب تک ان غیر قانونی طورپر مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ وطن واپسی کو ترجیح دی اور رضا مندی سے واپس جانے والے افراد اور خاندانوں کو عزت اور وقار کے ساتھ واپس جانے کے تمام تر مواقع فراہم کئے۔ حکومت پاکستان کےتمام ادارے مل کر طورخم ، چمن اور دیگر سرحدی علاقوں میں بہترین انتظامی اقدامات کو یقینی بنارہے ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ عبوری افغان حکومت بھی اپنے ہم وطنوں کے لئے سرحدکے پار پاکستان کی طرز پر احسن اقدامات کرے گی۔ پاکستان کو غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا مکمل قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے۔
وزیراعظم نے کہاکہ یہاں پر یہ واضح کرنا انتہائی ضروری ہے کہ ان غیر قانونی طورپر مقیم افراد کے علاوہ 14 لاکھ کےقریب افغان مہاجرین پروف آف ریذیڈینس کے تحت رجسٹرڈ ہیں اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے تقریباً 8 لاکھ افغان شہریوں کو افغان سیٹیزن کارڈ کے تحت رجسٹرڈ کیاہے۔ یہ افراد غیر قانونی طورپر پاکستان میں مقیم تھے اور ان کے قیام کو عبوری طورپر انتظامی جواز مہیا کیا گیا ہے۔ انہیں اس مرحلے میں کسی قسم کے دبائو کے بغیر پاکستان میں رہنے اور کاروبار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ بے نامی املاک اور غیر قانونی سرمائے کا دہشت گردی اور جرائم سے گہرا رشتہ ہے۔ حالیہ مہم میں یہ بھی مد نظر رکھاجائے گا اور ان معاملات میں قانون کے مطابق کارروائی بھی کی جائے گی۔ وزیراعظم نے اس ضمن میں چند افغان رہنمائوں کے غیر ضروری ، غیر ذمہ دارانہ ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات کو افسوسناک قراردیتےہوئے کہاکہ ایسے بیانات فضاکو مسموم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان رہنمائوں کے بیانات کےفوراً بعد دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں غیر معمولی تیزی نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ ریاست پاکستان کے خدشات کی توثیق بھی کرتی ہے۔
افغان عبوری حکومت یہ ادراک ہونا چاہیے کہ افغانستان اور پاکستان دو ہمسایہ مگر خود مختار ممالک ہیں جن کے باہمی تعلقات کو رسمی طورپر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوںممالک کے باہمی تعلقات ایسے ہی چلائے جانے چاہئیں جیساکہ دنیا بھر میں دیگر خود مختار ممالک کے مابین چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قوانین جو باقی تمام ممالک کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی ، ہماری آمد و رفت اور تجارت کا احاطہ کرتے ہیں، افغانستان کے حوالےسے بھی یکساں نافذکئے جائیں گے۔ پاکستان افغانستان کی سہولت کے لئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے اور جاری رکھے گا۔ اس حوالےسے ریاست پاکستان نے سمگلنگ کے انسداد کے لئے کچھ اقدامات کئے ہیں جن میں سے ایک منفی فہرست کااجرا ہے۔ منفی فہرست میں وہ درآمدی اشیاشامل کی گئی ہیں جن کی افغانستان میں طلب نہ ہونے کے برابر تھی اور سمگل ہو کر پاکستان میں غیرقانونی طورپر فروخت ہو رہی تھیں۔
وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کے عوام نے افغان مہاجرین کےلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ، اس بے مثال جذبہ ایثار کے جواب میں الزام تراشی اور دشنام طرازی نے پاکستان کے غیور اور بے لوث عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ حکومت پاکستان نے افغان عبوری حکومت کے مسلسل اصرار پر حتی المقدور کوشش کی کہ ان معاملات کو میڈیاپر لائے بغیر باہمی افہام و تفہیم سے حل کر لیاجائے مگر افغان عبوری حکومت کے اعلیٰ حکام کے بے جا اور غیرضروری بیانات کے بعد یہ ضروری سمجھاگیا کہ حکومت پاکستان اپنا موقف واضح کرے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کرتےہیں کہ وہ بھی افغانستان میں غیر قانونی طورپر مقیم پاکستانیوں ، جو کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں کو پاکستان کے حوالے کرے ۔ حکومت پاکستان ایسے تمام پاکستانیوں کو وصول کرنے کو تیار ہے۔ دوسری صورت میں ہم عبوری افغان حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی سرکوبی کے لئے ہرممکن اقدامات عمل میں لائے گی۔ افغانستان میں موجود جو تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں اور تربیتی مراکز کا قلع قمع کرے گی ۔اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ دہشت گردی کے سوداگر افغانستان کی سرزمین کو اپنے مذموم مقاصدکے لئے استعمال میں نہ لاسکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج ہمارا خطہ تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ وزیراعظم دعوت دی کہ آئیے ہم باہمی تعاون کی ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ صبح نو کی اساس دہشت گردی کے خلاف عمل پیہم سے مربوط ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ چین ، ایران ، آذربائیجان سمیت مختلف ممالک میں ایسی اقوام بستی ہیں جن جو سرحد کے دونوں طرف موجود ہیں اور یکساں پس منظر کی حامل ہیں۔ کردوں کا عراق ، ایران اور ترکیہ کے ساتھ اسی طرح کامعاملہ ہے۔خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں سرحد پار غیر قانونی آمد و رفت کا کوئی جوازنہیں ہے۔ دنیاکی کوئی ریاست غیر قانونی آمد ورفت کی اجازت نہیں دیتی،ہم نے کوئی نیاکام نہیں کیا ۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے بتایاکہ اب تک لگ بھگ 2 لاکھ 52ہزار غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی ہوئی ہے۔ یہ بہت حوصلہ افزا اور خوش آئند ہے۔ غیرقانونی طورپر مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی کی حوصلہ افزائی کریں گے اور ان کی عزت نفس کا بھی خیال رکھیں گے۔ ریاست اپنے فیصلے کی ڈریکونین انداز میں عملدرآمد نہیں کررہی لیکن ہم اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے پرعزم ہیں۔ انہیں کسی بدلے یا انتقام میں نہیں واپس بھجوایاجارہا ۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوا۔ رضاکارانہ طورپر اڑھائی لاکھ افراد کاواپس جانا معمولی بات نہیں ہے۔ ہمارے فیصلوں کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ یہ پالیسی کامیابی سے نافذالعمل ہو گی۔
پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے مابین تعلقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت کی طرف سے مثبت اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے ہمیں بھی اپنےرویئےپر نظر ثانی کرناپڑی۔ امید ہے کہ اب ہمارے افغانستان کے ساتھ تعلقات پہلے سے بہتر ہوں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی پشتون کو اس پالیسی کی آڑ میں نشانہ نہیں بنایا جائےگا۔چاروں صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے احکامات دیئے گئے ہیں۔ ہم نے یہ پالیسی کسی کو نشانہ بنانے یا نچلی سطح پر لوگوں کو تنگ کرنے کا ذریعہ بنانے کے لئے نہیں بنائی۔ اگر کوئی اس طرح کی کسی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو اس سے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تمام صوبوں اور علاقوں کے عوام برابر کے شہری ہیں اور کسی نسلی تعصب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن پالیسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں آنے دی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان پر امریکا یاکوئی بھی ملک دبائو نہیں ڈال سکتا۔ کسی ملک کی طرف سے کسی معاملے پرپاکستان سے درخواست کرنے کو دبائو ڈالنےکے مترادف نہیں قرار دیاجاسکتا۔پاکستان کسی ملک کا دبائو قبول کرتا ہے نہ کرے گا۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعدبہت سے لوگ افغانستان چھوڑ کر پاکستان آ گئے ۔ ان لوگوں کے کوائف پاکستان کے پاس بھی موجود ہیں اور جن ممالک میں انہوں نے جانا ہے۔
ان کے پاس بھی ان کے کوائف موجود ہیں۔ پاکستان مختلف مغربی ممالک کےساتھ معاونت میں ہے۔ جن ممالک کے ساتھ ان لوگوں نے کام کیا ہے اور وہ انہیں اپنے ہاں سیٹل کرنا چاہتے ہیں ان کے حوالےسے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ایسے افغان شہریوں کی حیثیت غیر قانونی طورپر مقیم افراد سے مختلف ہے جنہیں واپس بھیجا رہا رہے وہ ایسے افراد ہیں جن کےپاس کسی قسم کی کوئی دستاویز نہیں ہے۔ان افراد نے یہاں نہیں رہنا ہے ،انہوں نے کسی مغربی ملک چلے جانا ہے اور وہ انتظار میں ہیں۔ہم نے ان کی جلد ازجلد واپسی کے لئے ٹائم لائن مانگی ہے ۔
ہم یقینی بنائیں گے کہ اس ٹائم لائن کے اندر یہ لوگ مطلوبہ ملک میں چلے جائیں ۔ان افراد کے حوالے سے ہم متعلقہ ممالک کی معاونت کریں گے۔ ہم انہیں یہاں رہنے کی قطعاً اجاز ت نہیں دے رہے، انہوں نے یہاں سے جانا ہے اور انہیں لے جانے کے لئے متعلقہ ممالک تیار ہیں۔ ان کی واپسی کے حوالے سےمیکنزم پر بات چیت ہوئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ غزہ میں بچے اور خواتین شہید ہو رہے ہیں۔ ہسپتالوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ کسی ریاست نے صدیوں میں ایساظلم نہیں کیا ہو گا۔
سعودی عرب میں اس معاملے پر ایک خصوصی اجلاس بلایا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تشددکا فوری خاتمہ ہو اور ادویات اور خوراک سمیت ضروری سامان پہنچے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔ دشمن ہر طرح کے حالات میں یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم بھی اسے ہر طرح کے حالات میں جواب دیتےرہیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ افغانستان ایک علیحدہ ملک ہے۔ایران میں 30 فیصد آذری باشندے ہیں اور آذربائیجان میں بھی آذری بستے ہیں۔ ہزار سال سے دونوں طرف لوگ رہے ہیں۔ اسی طرح تاجک بھی تاجکستان کی سرحد کے دونوں طرف ہیں۔ازبک بھی ازبکستان کی سرحد کی دونوں طرف ہیں۔ ترکمانستان کی بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔پاکستان کا معاملہ الگ اندازمیں ایسے پیش کیاجاتا ہے جیسے یہ کسی اور کامسئلہ نہیں ہے۔کیاکوئی دوسری ریاست آزادانہ اور بےروک ٹوک نقل وحمل کی اجازت دیتی ہے؟ قومی ریاستوں کی پالیسی آئین اور قانون کے تابع ہوتی ہے۔
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اس کے شواہد سامنے آ چکے ہیں ڈیڑھ لاکھ افغان ملٹری تھی اس کا اسلحہ کہاں گیا؟ یہ امریکی اسلحہ مشرقیٰ وسطیٰ تک جا رہا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ 25 ہزار افغانوں کا ڈیٹا پاکستان کے پاس موجود ہے، ان کو مختلف ممالک میں جانا ہے، ان 25 ہزار افغانوں کو بھی جانا ہے، ان کو لے جانے والے بھی تیار ہیں ہم ان کو اپنے پاس نہیں رکھیں گے، افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ نہیں وہ الگ ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پہلے سے بہتر ہوگئے ہیں، اس سے قبل افغان حکومت ہماری پالیسیوں یا ہم سے فوائد کو معمولی لیتی تھی۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں خود پشتون ہوں، کسی بھی پاکستانی پشتون کو اس پالیسی کے تحت ٹارگٹ کرنا قابل قبول نہیں، واضح کردوں اگر کوئی شخص ان حرکات میں پایا گیا تو اسے سخت سزا دی جائے گی کیونکہ پشتون کا پاکستان میں اتنا ہی حق ہے جتنا ہے پنجابی، بلوچی، سندھی اور گلگتی کا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ اپنے ذہنوں سے نکال دیں پاکستان پر امریکا یا کسی بھی ملک کا کوئی دباؤ ہے، پاکستان کسی پر دباؤ دیتا ہے اور نہ پاکستان کسی کا دباؤ لے گا، جیسے ہم مختلف ممالک سے درخواست کرتے ہیں ویسے ہی ہم سے درخواستیں کی جاتی ہیں، لہٰذا اسے دباؤ کہنا درست نہیں۔
نگران وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کاروئی دونوں ممالک کے میں ہے البتہ ہم امریکہ کو کئی بار کہا آپ تو خطے ےس چلے جائیں گے لیکن پاکستان کو سامنا کرنا پڑے گا۔
Source: APP