نسل کشی اور جنگی جرائم پر اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
غزہ کی صورت حال نسل کشی کی ہی ایک صورت ہے جس میں اسرائیل پوری طرح شریک ہے ، مائیکل فخری
اقوام متحدہ کے پروگرام رائٹ ٹو فوڈ کے نمائندے مائیکل فخری نے کہا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر غزہ کے لوگوں کو بھوکا مارنا چاہتا ہے اور اس نسل کشی اور جنگی جرائم پر اس کا احتساب ہونا چاہیے۔
برطانوی اخبار گارجین سے بات چیت کرتے ہوئے مائیکل فخری نے کہا کہ جان بوجھ کر عام شہریوں کو خوراک سے محروم رکھنا جنگی جرم ہے جیسا کہ اٹلی کی بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لوگوں کی بقا کے لیے ضروری اشیا کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا یا ان سے محروم کرنا اسی ذیل میں آتا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے متعدد بار اسرائیل پر الزام لگا چکے ہیں کہ وہ بھوک کو بھی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور سنہ 2018 میں اس کو جنگی جرم بھی قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ جان بوجھ کر انسانی امداد کا راستہ بند، ماہی گیروں کی کشتیوں کو روکا اور باغات کو ختم کیا جائے سوائے اس کے کہ اس کا مقصد لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا ہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے لوگوں کو فلسطینی ہونے پر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی صورت حال نسل کشی کی ہی ایک صورت ہے جس میں اسرائیل پوری طرح شریک ہے جس پر اس کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
مائیکل فخری کے بقول اسرائیل کی جانب سے آنے جانے والی اشیا کی چیکنگ سے صورت حال پہلے سے ہی خراب تھی جبکہ جنگ شروع ہونے کے بعد وہ آسانی سے سب کو بھوکا رکھنے میں کامیاب ہو گیا کیونکہ بہت سے لوگ پہلے ہی اس دہانے پر پہنچے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ عام شہری آبادی کو اس طور پر بھوکا رکھا جائے اور اسرائیل صرف عام شہریوں کو ہی نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ فلسطینیوں کے بچوں کو نقصان پہنچا کر ان کا مستقبل کو تباہ کر رہا ہے۔
مائیکل فخری نے ان ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے فلسطینیوں کی مدد کرنے والے ادارے کی فنڈنگ روکی۔
انہوں نے کہا کہ صرف چند لوگوں کے خلاف غیرمصدقہ دعووں کی بنا پر فنڈنگ روک دیا جانا تمام فلسطینیوں کو سزا دینے کے مترادف ہے۔