میری رائے میں پارلیمنٹ کے بجائے آئینِ پاکستان سپریم ہے کیوں کہ پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے، جج آئینی بینچ

میری رائے میں پارلیمنٹ کے بجائے آئینِ پاکستان سپریم ہے کیوں کہ پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے، جج آئینی بینچ

میری رائے میں پارلیمنٹ کے بجائے آئینِ پاکستان سپریم ہے کیوں کہ پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے، جج آئینی بینچ

 آرمی ایکٹ کی شق 2-1-dکو کالعدم قرار دینے کی حد تک فیصلہ درست نہیں، خواجہ حارث کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان ن
ہم فوجی عدالت کوعدالت تصورنہیں کرتے ، آئین کے آرٹیکل 175سے ہٹا کرعدالت بناہی نہیں سکتے۔جسٹس جمال خان مندوخیل

اسلام آباد:   فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آرمی ایکٹ کی شق 2-1-dکو کالعدم قرار دینے کی حد تک فیصلہ درست نہیں، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم فوجی عدالت کوعدالت تصورنہیں کرتے ، آئین کے آرٹیکل 175سے ہٹا کرعدالت بناہی نہیں سکتے۔ کسی نے آرمی ایکٹ پراعتراض نہیں کیا صرف dکی بات ہورہی ہے۔ میری رائے میں پارلیمنٹ کے بجائے آئینِ پاکستان سپریم ہے کیوں کہ پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے، مقننہ آئین کی پابند ہے ، ہرکوئی چاہے سپریم کورٹ ہویاپارلیمنٹ آئین کے پابند ہیں۔ کیا صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ تمام بنیادی حقوق معطل کرسکتے ہیں۔ یہ تصورکیوں نہیں کرتے کہ آرمی ایکٹ ڈسپلنری قانون ہے۔

سویلینز کامسلح افواج کے اہلکاروں کے ڈسپلن اور ذمہ داریوں کی انجام دہی کے حوالہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ صدر کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ اور آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت سپریم کورٹ نہیں آسکتے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ گزشتہ سال سے یہ کیس سن رہے ہیں میرے سوال کاجواب کب آئے گا، کیا فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175 کے زمرے میں آتی ہیں؟ کیا فوجی عدالت بھی عام عدالت کے معیار کی ہی عدالت ہوتی ہے؟یہ اکیڈمک سوال ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آج سویلین1973کے آئین کے تحت ہمارے سامنے کھڑے ہیں، مقننہ سے 1973کے آئین میں بھول ہوئی ہے اس لیئے ہم آج یہ کیس سن رہے ہیں، یہ میرانقطہ نظر ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معالہ پر دائر 38نظرثانی درخوستوں پرجمعرات کے روز دن ساڑھے 11بجے سماعت شروع کی۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے جواب الجواب میں اپنے دلائل کاسلسلہ جاری رکھا۔سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے روسٹرم پر آکرکہا کہ میں نے پیپر بک جمع کروادی ہے ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا کوئی اوربھی پیپر بک جمع کروائیں گے۔

 اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میں آج خواجہ حارث کے دلائل سن لوںگااور اگر مزید کوئی جواب جمع کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی توکروادوں گا۔سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ بنایا ہی اسی لیے جاتا ہے کہ فوج کو ڈسپلن میں رکھا جا سکے،16یا17ویں صدی میں آرمی کے رولز نہیں ہوتے تھے، بغاوت کوروکنے کے لئے قانون بنا، پھر آرمی ایکٹ آیا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ مقننہ نے 2-1-d-1-2کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ قانون کا اطلاق کس پر ہونا ہے اور کیسے ہونا ہے یہ طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ میری رائے میں پارلیمنٹ کے بجائے آئینِ پاکستان سپریم ہے کیوں کہ پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے، مقننہ آئین کی پابند ہے ، ہرکوئی چاہے سپریم کورٹ ہویاپارلیمنٹ آئین کے پابند ہیں۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ایک شق کے بجائے ہمیں آئین پاکستان کو مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے، کسی قانون کے اطلاق کا معیار کیا ہوگا یہ طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں، ہم آئین کی ایک شق کو دوسری پر فوقیت نہیں دے سکتے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھاکہ پارلیمنٹ نے قانون بنان ہے کہ کس طرح ڈسپلن قائم رکھنے اور ذمہ داریوں کی انجام دہی کویقینی بناناہے، جیسے ہی قانون بنے گاوہ آئین کے آرٹیکل 8-3میں آجائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کسی جرم کامعمولی سا بھی گٹھ جوڑ بنتا ہے توکیا پارلیمنٹ اس کوآرمی ایکٹ میں شامل کرسکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 8-3Aپر عملدرآمد کے لئے مقننہ نے آرمی ایکٹ بنادیا جس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پرسزائیں بھی رکھی ہیں، ملازمت سے برخاست بھی کیاجاسکتا ہے اور قید کی سزابھی دی جاسکتی ہے، dآیا اس کے حوالہ سے دیکھنا ہے کہ وہ ڈسپلن کے بارے میں اوریجنل ٹیسٹ پر پورا اترتا ہے کہ نہیں۔ جسٹس جمال خنا مندوخیل کاکہنا تھا کہ 8-3کو 8-1،8-2کے ساتھ ملاکردیکھیں گے کہ یہ ان کے مطابق ہے کہ نہیں، جو استثنیٰ 8-3میں فوجی اہلکاروںکے لئے دیا گیا ہے کیا وہ اس کودیگر لوگوں تک پھیلایا جاسکتا ہے کہ نہیں۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 1967میں یہ قانون آیا اور ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ سویلینز کوبنیادی حقوق حاصل ہوں گے اوران کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، ایف بی علی کیس میں بنیادی حقوق دیئے اور کہ کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جو 8-3میں آئیں گے انہیں بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ سویلینز کے لیے مزید شقیں بھی شامل کر سکتا ہے؟۔اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ سوال عدالت کے سامنے ہے ہی نہیں۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ چیلنج شدہ فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 8(5) میں نہیں جانا چاہیے تھا۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق سے استثنا دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ استثنا صرف آرمڈ فورسز تک ہے یا اس کا دائرہ سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے؟خوجاہ حارث کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 8(3) اے صرف مسلح افواج کے ممبران کے لیے نہیں، اس میں سویلینز کو بھی لایا جاسکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چلیں مان لیتے ہیں کہ 1962 کے آئین کے تحت ایف بی علی کیس میں سویلینز کو ٹرائل کیا جاسکتا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کورٹ مارشل 1973 کے آئین کے مطابق ہے؟ اب آرٹیکل 175(3) اور آرٹیکل 10 اے بھی ہے ؟ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں اس کا جواب دوں گا مگر پہلے آرٹیکل 8 پر دلائل مکمل کرلوں، ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوں گا چیلنج شدہ فیصلے میں کیا خرابیاں ہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کون سے ایسے نئے نقاط ہیں جنہیں اس اپیل میں طے کرنا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ تمام بنیادی حقوق معطل کرسکتے ہیں۔

 جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ صدر کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ اور آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت سپریم کورٹ نہیں آسکتے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ایمرجنسی کی صورت میں سارے بنیادی حقوق معطل ہوسکتے ہیں۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ 5رکنی بینچ کو 8-5میں جانا ہی نہیں چاہیئے تھا 8-3کو8-1اور8-2کے ساتھ ملاکر پڑھنا چاہیئے تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 5رکنی بینچ نے یہ نتیجہ نکالا کہ سویلینز کے بنیادی حقوق معطل نہیں کرسکتے۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 8(5) کی حد تک ہم سب ایک پیج پر ہیں یہ نہیں لگتا، ہم براہ راست مدعا پر آجاتے ہیں جو8-1-2ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سال سے یہ کیس سن رہے ہیں میرے سوال کاجواب کب آئے گا، کیا فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175 کے زمرے میں آتی ہیں؟ کیا فوجی عدالت بھی عام عدالت کے معیار کی ہی عدالت ہوتی ہے؟یہ اکیڈمک سوال ہے۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میرا اگلا نکتہ یہی ہے اس سوال کا جواب دوں گا پہلے آرٹیکل 8 پر  مطمئن کر لوں۔جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ باقی ججز کب مطمئن ہوں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 8-3اور8-1پر کہیں فیصلہ میں بحث ہوئی۔دورانِ سماعت جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کی شق 2-1-dکو کالعدم قرار دینے کی حد تک فیصلہ درست نہیں، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ آج سویلین1973کے آئین کے تحت ہمارے سامنے کھڑے ہیں، مقننہ سے 1973کے آئین میں بھول ہوئی ہے اس لیئے ہم آج یہ کیس سن رہے ہیں، یہ میرانقطہ نظر ہے۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ تصورکیوں نہیں کرتے کہ آرمی ایکٹ ڈسپلنری قانون ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کے لئے بنے قانون میں سویلینز کو1967میں رڈیننسز کے زریعہ لائے اس کو کیسے ڈیل کریں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سویلینز کامسلح افواج کے اہلکاروں کے ڈسپلن اور ذمہ داریوں کی انجام دہی کے حوالہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرمی کورٹ چلا سکتی ہے تاہم بنیادی حقوق حاصل ہوں گے یہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فوجی عدالت آزاد عدالت ہے اس لئے اس کی اپیل ہائی کورٹ یاسپریم کورٹ نہیں جاتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم فوجی عدالت کوعدالت تصورنہیں کرتے۔

اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس جمال مندوخیل اپنااور ہمارابھی سوال کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 175سے ہٹا کرعدالت بناہی نہیں سکتے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ پھر ملک کی سیکیورٹی اوردفاع کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے پاس کیسز آئیں گے کہ ہمیں کام کرنے کی اجازت دیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوئی فوجی اہلکار آکر کہہ سکتا ہے کہ ہمیں کیوں آزاد فورم نہیں دیتے جس طرح بھارت میں دستیا ب ہے۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کورٹ مارشل ملک کی سیکیورٹی اوردفاع کے لئے ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کسی نے آرمی ایکٹ پراعتراض نہیں کیا صرف dکی بات ہورہی ہے۔ بعد ازاںآئینی بینچ نے کیس فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملہ پر دائر نظرثانی درخواستوں پر مزید 7 اپریل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ عید الفطر کی چھٹیوں کی وجہ سے ججزسپریم کورٹ رجسٹریوں میںکیسز کی سماعت کریں گے۔ اس دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کیا دلائل ختم ہونے پر ہمیں ایک دن جواب جمع کروانے کے لئے ملے گا۔

اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ آخری سماعت سے قبل جمع کروادیں آخری دن ہوسکتا ہے ہم مختصر حکمنامہ جاری کردیں اس لئے جواب جمع کروانے کافائدہ نہیں ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جواب الجواب، جواب الجواب یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کتنے دن مزید دلائل میں لیں گے۔

اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ بینچ چونکہ آدھادن سماعت کرتا ہے اس لئے مجھے دلائل ختم کرنے میں 8دن لگیں گے میں کوئی نئی بات نہیں کررہاصرف مدعاعلیہان کے وکلاء کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دے رہا ہوں۔

آئینی بنچجسٹس جمال خان مندوخیلسپریم کورٹ آف پاکستان
Comments (0)
Add Comment