موسمیاتی تبدیلی بڑا چیلنج ہے، پاکستان میں پانی کی دستیابی تشویشناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ احسن اقبال
موسمیاتی تبدیلی بڑا چیلنج،پانی انسانی زندگی و سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، احسن اقبال
اسلام آباد: وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی واصلاحات وخصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا چیلنج ہے اور پانی انسانی زندگی و سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے پانی کے وسائل پر دباؤ ڈالا ہے اور پاکستان میں پانی کی دستیابی تشویشناک حد تک کم ہوگئی ہے۔
پیر کو موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی اہمیت کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آبپاشی نظام کو دنیا کے بڑے نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے اور دو بڑے سٹوریج ڈیمز کی تعمیر جاری ہے تاکہ پانی کے ذخائر کو بہتر کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت ملک کی 40 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی ہے اور پانی و غذائی تحفظ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اپنانا ضروری ہے۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ دنیا میں 2.2 بلین افراد کو صاف پانی میسر نہیں ہے اور پاکستان میں پانی کی سطح 100 کیوبک میٹر تک پہنچ گئی ہے جبکہ قابل قبول حد 2000 کیوبک میٹر ہے، عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ کم ہے مگر ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ایک نئے ٹیکنو اکانومی انقلاب کی جانب بڑھنا ہوگا اور سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ پانی اور غذائی تحفظ کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا چیلنج ہے، پانی ماحولیاتی نظام کا اہم جزو ہے، پانی انسانی وجود اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے لائف لائن ہے،موسمیاتی تبدیلی اور شہری آبادی میں اضافے نے پانی کو متاثر کیا، موسمیاتی تبدیلی سے 40 ملین سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں، پاکستان میں پانی کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے، پاکستان کا نہری و آبپاشی نظام دنیا کے سب سے بڑے مربوط آبپاشی کے نظاموں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانی کے ذخائر کیلئے دو میگا سٹوریج ڈیمز کی تعمیر شروع ہو گئی ہے، پاکستان کو آبادی میں اضافے اور موسمیاتی اثرات کے غیرمعمولی چیلنجز درپیش ہیں۔زراعت پاکستان کی 40فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے،پانی اور غذائی تحفظ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پانی خوراک اور معاشی تحفظ کی ریڑھ کی ہڈی ہے، 30بین الاقوامی اور 50 آن لائن آبی ماہرین شرکت کر رہے ہیں، کانفرنس سے دنیا کے اجتماعی مستقبل کی تشکیل کے لیے باہمی تعاون کو تقویت ملے گی،دنیا بھر میں 2.2 بلین لوگ صاف پانی سے محروم ہیں،پاکستان میں پانی کی سطح 100 کیوبک میٹر تک پہنچ چکی ہے جبکہ قابل قبول حد 2000 کیوبک میٹر ہے، پاکستان ماحولیاتی لحاظ سے دنیا کا ساتواں غیر محفوظ ملک ہے،2050 تک موافقت کی ضروریات پر 7 سے 24 بلین ڈالر لاگت آئے گی،عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ کم ہے، لیکن پاکستانی عوام قیمت چکا رہے ہیں، 2022 میں موسمیاتی آفات سے متاثر ہونے کی قیمت غریبوں نے چکائی،
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اب عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے، ہمارے بچوں کا مستقبل آج کے اقدامات پر منحصر ہے، 90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے، ناکارہ زراعت ایک مسئلہ ہے، قومی آبی پالیسی 2018ء میں شروع کی گئی جس نے پائیدار حل فراہم کیے، پی ایس ڈی پی کا 2.2 فیصد آبی وسائل کے لیے وقف ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اقتصادی تبدیلی کے منصوبے میں پانی اور سلامتی پر توجہ دی گئی ہے، پاکستان خود انحصاری کی جانب اقدامات کر رہا ہے، 2017 میں منظور شدہ قومی سیلاب منصوبے پر 4 ارب ڈالر لاگت آئی، خشک سالی اور پانی کی کمی کا اثر خوراک کی قیمتوں پر پڑتا ہے، عالمی بھوک انڈیکس میں پاکستان 127 ممالک میں 109 ویں نمبر پر ہے، نیشنل زیرو ہنگر پروگرام سے اگلے 2 سال میں بھوک میں 30 فیصد کمی کا ہدف ہے۔ہم ایک نئے ٹیکنو اکانومی انقلاب کی جانب بڑھ رہے ہیں،پانی اور غذائی تحفظ کے لیے سیاسی استحکام اور پالیسی کا تسلسل ضروری ہے، 2018 کے بعد ملکی مفاد کے لیے استحکام کی بحالی کا عزم کیا، ہمیں پانی اور خوراک کے بحران سے محفوظ پاکستان کی بنیاد رکھنی چاہیے،مستقبل ہمارے جرات مندانہ فیصلوں پر منحصر ہے۔