معاشرے میں ایک خاتون کو وہی مقام حاصل ہے جو ایک مرد کوحاصل ہے، سپریم کورٹ

معاشرے میں ایک خاتون کو وہی مقام حاصل ہے جو ایک مرد کوحاصل ہے،  سپریم کورٹ
خاتون آزادا ورخود مختار ہے اور  اسے مرد کی طرح تمام حقوق اورآزادیاں حاصل ہیں
مسمات نورین کے قتل کیس میں ملوث ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں خارج تحریری فیصلہ جاری

اسلام آباد:  سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے قراردیا ہے ایک خاتون کو معاشرے میں وہی مقام حاصل ہے جو ایک مرد کوحاصل ہے، وہ آزادا ورخود مختار ہے اور اسے مرد کی طرح تمام حقوق اورآزادیاں حاصل ہیں۔

 آئین پاکستان کاآرٹیکل9 کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اُس کی زندگی اور آزادی سے صرف قانون کے مطابق ہی محروم کیا جاسکتا ہے۔ ضمانت قبل ازگرفتاری ایک غیر معمولی ریلیف ہے جو کہ غیر معمولی حالات میں ہی دیا جاسکتاہے تاکہ معصوم افراد کی آزادی کاتحفظ کیا جاسکے۔ غیرت کے نام پر قتل کااقدام ہمارے معاشرے میں کاروکاری کہلاتاہے جو کہ ہمارے معاشرے ، انسانیت اورلوگوں کے لئے سرطان اور بیماری کی مانند ہے ۔

درحقیقت یہ قتل کاایسا اقدام ہے جس میں ایک مرد اور عورت کو اس کے اصل ، تصور شدہ غیر اخلاقی کاموں یا چال چلن کی وجہ سے قتل کیا جاتاہے۔ تحقیق پر مبنی حقائق بتاتے ہیں کہ اس طرح کے غیر انسانی اور بے رحمانہ اقدامات کاشکار اکثریت خواتین کی ہے جن کوقتل کرنے والے یاجارح افرا دیا ان کے اپنے خاندان یا معاشرے کے مرد ہیں ۔

غیرت کے نام پر قتل کے حوالہ سے جوچیز ابھارتی ہے وہ خودساختہ استدلال ہے کہ بے عزتی اوربدسلوکی کاداغ دھونے کے لئے غیرت کے نام پرقتل ناگزیر ہے۔جنسی بنیاد پر تشدد کایہ خودساختہ اسٹائل نہ صرف انسانیت اور سماجی آرڈر کے لئے تباہ کن ہے بلکہ اسے فساد فی الارض سمجھا جاتا ہے جو کہ نہ صرف مہذب کلچر کی روایات کے خلاف ہے بلکہ یہ آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے اورسب سے اہم یہ کہ یہ عمل اسلامی تعلیمات اور احکامات کی بھی سنگین خلاف ورزی اور اور بے عزتی ہے۔

جبکہ عدالت نے غیرت کے نام پر سندھ کے ضلع جامشورو میں قتل کی گئی 26سالہ خاتون مسمات نورین کے قتل کیس میں ملوث ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں خارج کرنے کاتحریری فیصلہ جاری کردیا۔ 12صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیاہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میںجسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سندھ ہائی کورٹ ، سرکٹ کورٹ حیدرآباد کے 20نومبر2023کے فیصلے کے خلاف محمد علی مہر اوردیگر کی جانب سے دائر درخوستوں پر11جون 2024کو سماعت کی تھی۔دوران سماعت درخوست گزاروں کی جانب سے میر احمد بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ ریاست پاکستان کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ ظفراحمد خان، ایس ایچ او محبوب اور تفتیشی افسر ایاز پیش ہوئے۔ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ کے ضلع جامشورو کے پولیس اسٹیشن بھان میں درج ایف آئی آر میں درخواست گزاروں کو دی گئی ضمانت قبل ازگرفتاری واپس لے لی تھیں۔ایف آئی آرمیں بتایا گیا ہے کہ شکایت کندہ منصورعلی نے 20ستمبر2021کو 26سالہ خاتون مسمات نورین ولد محمد علی مہر سے شادی کی تاہم ان کی شادی کا مرحومہ کے رشتہ داروں نے برا منایا۔

شادی کے بعد رخصتی نہیں ہوئی تھی اس لئے شادی شدہ جوڑا صرف فون پر رابطے میں تھا۔ شکایت کندہ کی جانب سے مزید الزام لگایا گیا ہے کہ مقتولہ اسے بتاتی تھی کہ اسے اپنے رشتہ داروں سے زندگی کاخطرہ ہے۔شکایت کندہ کی جانب سے مزید الزام لگایا گیا ہے کہ وہ 15مئی 2023تک اپنی بیوی کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ میں تھا تاہم 16مئی2023کو اس کی دوست کی جانب سے بتایا گیا کہ نورین کے والدین نے 15مئی 2023کو دن 3بجے پستول کے زریعہ کنپٹی پرگولی مارکراسے قتل کردیا ہے تاہم انہوں نے واقعہ کو خودکشی ظاہر کیا ہے۔

 شکایت کندہ کو اس بات کا بھی علم ہوا کہ درخواست گزار محمد علی مہر کی جانب سے فون پر اشتعال دلانے پر ملزم محسن علی مہر نے اس کی بیوی کو قتل کیا اور ملزمان کی جانب سے اصل حقائق چھپائے گئے۔ جبکہ شکایت کندہ نے 24ستمبر کو اپنے سپلیمنٹری بیان میں بتایا کہ اسے اطلاع ملی ہے کہ ملزم احسان مہر کواپنے والد محمد علی مہر کی جانب سے ملنے والی ہدایات پردوسرے بھائی محسن علی مہر کے ساتھ مل کر اپنے چچا کا لائسنسی پستول استعمال کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ احسان علی اورمحسن علی نے مل کر مسمات نورین کو قتل کیا ہے جبکہ دیگر نامزد ملزمان بھی جرم میں شریک ہیں۔

 فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ ان کے مئوکلین نے اپنی بیٹی اور بہن کھودی اس کے باوجوداپنے خلاف دائر جھوٹے کیس کی وجہ سے تکلیف اورتذلیل برداشت کررہے ہیں۔ وکیل کاکہناتھا کہ شکایت کندہ نے درخواست گزاروں سے رقم کے حصول کے لئے کیس دائر کیاہے۔

وکیل کاکہناتھا کہ یہ خودکشی کامعاملہ ہے اور غیرت کے نام پر قتل کا کوئی ثبوت موجود نہیں اور نہ ہی استغاثہ کی جانب سے کوئی براہ راست یا بلاواسطہ شواہد اکٹھے پیش کئے گئے ہیں کہ درخواست گزار جائے وقوعہ پر موجود تھے۔وکیل کاکہنا تھا کہ ایف آئی آر 3دن کی تاخیر سے درج کروائی گئی اوردرحقیقت مقتولہ نے شکایت کندہ کے ساتھ اذیت ناک تعلق کی وجہ سے خود کشی کی، کیونکہ مقتولہ نے شکایت کندہ سے خفیہ طور پر شادی کی تھی اور شکایت کندہ مقتولہ کواپنے تعلق کی وجہ ے بلیک میل کررہا تھا اوراس کی دولت ہتھیانا چاہتا تھا۔

 وکیل کا کہناتھا کہ درخواست گزار ایک معزز خاندان
سے تعلق رکھتے ہیں اورشکایت کندہ کی جانب سے بدنیتی پر مبنی الزامات لگائے گئے ہیں جو کہ مزید انکوائری کاتقاضہ کرتے ہیں۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کی مکمل طور حمایت کی اورکہا کہ دونوں درخواست گزار ملوث ہیں اور انہوں نے مقتولہ کی جانب سے شکایت کندہ سے شادی کرنے پر اظہار نارضگی کرتے ہوئے جرم کے ارتکاب میں اہم کردار اداکیاہے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ کاکہناتھا کہ درخواست گزار بدنیتی کاکوئی بھی الزام لگانے میں ناکام رہے ہیں۔سرکاری وکیل کاکہناتھا کہ درخواست گزاروںپرجودفعات لگائی گئی ہیںوہ ممنوعہ کلاز کے دائرہ کار میں آتی ہیں لہذا وہ ضمانت قبل ازگرفتاری کے مستحق نہیں۔جبکہ شکایت کندہ کے وکیل کاکہناتھا کہ مقتولہ کے اہلخانہ پسند کی شادی کرنے کی وجہ سے سخت ناراض تھے جس کی وجہ سے مقتولہ کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا اور اس کی تصویرکشی خود کشی کے طور پر کی گئی۔

وکیل کاکہناتھا کہ درخواست گزاروں کی جانب کوئی ایف آئی آر درج نہیں کروائی گئی، جوکہ اِس صورت میں بھی درج کروانا تھی اگروہ اسے خودکشی کاواقعہ تصور کرتے تھے۔ وکیل کاکہناتھا کہ مقتولہ کاقتل درخواست گزاروںکے گھر میں ہوا اور انہوں نے مقتولہ کے موبائل فون سے مسیجز ڈیلیٹ کرکے شواہد ضائع کرنے کی کوشش کی جو کہ فارنزک ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے واپس بحال کرلئے گئے۔ وکیل کاکہناتھاکہ مناسب طریقہ سے شادی شدہ جوڑے کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے جوکہ واپس بحال کئے گئے موبائل فون میسجز سے واضح ہے، لہذا مقتولہ کی جانب سے خودکشی کرنے کاکوئی جواز نہیں بنتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں لکھاہے کہ ہم نے دلائل سنے، استغاثہ کے کیس کے مطابق مقتولہ نوجوان26سالہ سکول ٹیچر تھی (دانشت نامہ میں مقتولہ کی عمر 21سے22سال بتائی گئی ہے)۔مقتولہ کو کنپٹی پرآتشیں اسلحہ کازخم لگا جس کی وجہ سے اس کاانتقال ہوگیا۔ وجہ تنازعہ یہ ہے کہ شکایت کندہ کے مطابق یہ غیرت کے نام پرقتل کاکیس ہے اور مقتولہ کے خاندان کا کہنا تھا ہے کہ یہ خودکشی کامعاملہ ہے۔

شکایت کندہ کامقتولہ کے ساتھ نکاح تسلیم شدہ حقیت ہے اورشکایت کندہ نے الزام لگایا ہے کہ شادی کو مقتولہ کے والدین اوردیگر رشتہ داروں کی جانب سے قبول نہیں کیا گیا۔ مقتولہ کی عمر بتاتی ہے کہ وہ ہرطرح سے آزاد اورخودمختارتھی اور اپنے حوالہ سے فیصلے کرسکتی تھی۔ایک خاتون کو معاشرے میں وہی مقام حاصل ہے جو ایک مرد کوحاصل ہے، وہ آزادا ورخود مختار ہے اور اسے مرد کی طرح تمام حقوق اورآزادیاں حاصل ہیں۔

 آئین پاکستان کاآرٹیکل9اس تصور کی حمایت کرتا ہے، جو کہتاہے کہ کسی بھی شخص کو اُس کی زندگی اور آزادی سے صرف قانون کے مطابق ہی محروم کیا جاسکتا ہے۔  فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ زمینی حقیقت ہے کہ ایف آئی آر مقتولہ کے والدین کی جانب سے درج نہیں کروائی گئی بلکہ شکایت کندہ کی جانب سے اپنی بیوی کے قتل کی ایف آئی آر درج کروائی گئی،ضمیر کے مطابق یہ قتل تھا یاخودکشی پھر بھی امعاملہ والدین کی جانب سے پولیس کورپورٹ کیا جانا تھا تاکہ تحقیقات ہوتیں کہ معاملہ خودکشی کا ہے یا قتل کابجائے اس کے پہلی ہی نظر میں اسے خود کشی قراردے دیا جاتا ، جس کی وجہ سے مقتولہ کے خاندان کے افراد کے کنڈکٹ پربہت سے سوالات اورتحفطات پیداہو گئے ہیں جن کو شکایت کندہ کی جانب سے فریق بنایا گیا ہے ۔ میڈیکل شواہد بتاتے ہیں کہ زخم کی جگہ کو سیاہ کیا گیا تھا جوتجویز کرتا ہے کہ یہ خودکشی کاکیس نہیں۔

استغاثہ کے مطابق درخواست گزارنمبرایک کی جانب سے اشتعال دلایا گیا جس کی وجہ سے اس کی بیٹی کاقتل ہوا، جبکہ احسان محمد علی نے بھی قتل میں اپنے بھائی کی سہولت کاری کی۔بحال کئے گئے واٹس ایپ پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقتولہ اورشکایت کندہ کی آپس میں مکمل ہم آہنگی تھی اور ان کے محبت اورشفقت پر مبنی تعقات تھے۔ مقتولہ اورشکایت کندہ کی آپس میںخوشگوار گفتگو اس با ت کااظہارکرتی ہے کہ دونوںکے درمیاں کوئی تنازعہ اورپریشانی نہیں تھی جوکہ خودکشی کے حوالہ سے کسی بھی بیان کی نفی کرتی ہے جبکہ یہ بات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ مقتولہ کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے، جس کاالزام لگایاگیاہے۔ کوئی بھی میسج اس بات کی نشاندہی نہیں کرتاکہ مقتولہ پریشان یا مایوس تھی اورخودکشی کرنا چاہتی تھی۔

 فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون کا معروف اظہار ہے کہ ضمانت قبل ازگرفتاری ایک غیر معمولی ریلیف ہے جو کہ غیر معمولی حالات میں ہی دیا جاسکتاہے تاکہ معصوم افراد کی آزادی کاتحفظ کیا جاسکے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کااقدام ہمارے معاشرے میں کاروکاری کہلاتاہے جو کہ ہمارے معاشرے ، انسانیت اورلوگوں کے لئے سرطان اور بیماری کی مانند ہے ۔ درحقیقت یہ قتل کاایسا اقدام ہے جس میں ایک مرد اور عورت کو اس کے اصل ، تصور شدہ غیر اخلاقی کاموں یا چال چلن کی وجہ سے قتل کیا جاتاہے۔ تحقیق پر مبنی حقائق بتاتے ہیں کہ اس طرح کے غیر انسانی اور بے رحمانہ اقدامات کاشکار اکثریت خواتین کی ہے جن کوقتل کرنے والے یاجارح افرا دیا ان کے اپنے خاندان یا معاشرے کے مرد ہیں ۔ غیرت کے نام پر قتل کے حوالہ سے جوچیز ابھارتی ہے وہ خودساختہ استدلال ہے کہ بے عزتی اوربدسلوکی کاداغ دھونے کے لئے غیرت کے نام پرقتل ناگزیر ہے۔جنسی بنیاد پر تشدد کایہ خودساختہ اسٹائل نہ صرف انسانیت اور سوشل آرڈر کے لئے تباہ کن ہے بلکہ اسے فساد فی الارض سمجھا جاتا ہے جو کہ نہ صرف مہذب کلچر کی روایات کے خلاف ہے بلکہ یہ آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے اورسب سے اہم یہ کہ یہ عمل اسلامی تعلیمات اور احکامات کی بھی سنگین خلاف ورزی اور اور بے عزتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں لکھاہے کہ درخواست گزار پراسیکیوشن یا شکایت کندہ کی بدنیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں جس نے اپنی اہلیہ کے قتل کی تحقیقات کرنے اور ملزمان کو قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا اگرچہ مقتولہ خاتون درخواست گزاروں کی بیٹی اور بہن تھی۔ درخواست گزاروں نے خاتون کے قتل کے واقعہ کو خود کشی قراردیا ہے جو کہ ظاہری طور پر ریکارڈ پر رکھے گئے مواد کے عارضی تجزیے سے غلط بیان لگتا ہے ۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ہم فوجداری درخواست خارج کرتے ہیں اور مختصرحکمنامہ کے زریعہ 11جون 2024کوملزمان کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری خارج کردی تھی جس کے بعد ملزمان کو دی گئی ضمانت قبل ازگرفتاری واپس لے لی تھی۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حکمنامہ میں دی گئی آبزرویشنز میرٹ پرکسی بھی فریق کے کیس کو تعصب کاشکار نہیں کریں گی۔ ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق کیس فیصلہ کرے۔

آئین پاکستانانسانی حقوقسپریم کورٹ آف پاکستان
Comments (0)
Add Comment