ماہرین کا توانائی کی قیمتوں کے تعین کے لیے طویل مدتی ساختی اصلاحات پر زور

ماہرین کا توانائی کی قیمتوں کے تعین کے لیے طویل مدتی ساختی اصلاحات پر زور

پاکستان کا موجودہ بجلی اور توانائی کا بحران ناقص ساختی ، اور بنیادی وجوہات کے لئے قلیل مدتی ریلیف کے اقدامات کی ترجیحات کی کمی سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بات ماہرین نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے متعلق پالیسی ادارہ برائے  پائیدار ترقی (SDPI) اور پاکستان رینیوایبل انرجی کولیشن کی جانب سے منعدہ سیمینار میں کہی گئی جس کا مقصد ملک میں توانائی کی قیمتوں کے بحران کے بارے میں سوچ بچار کر کے اس کا  حل تلاش کرنا تھا۔ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر خاقان نجیب نے فوری طور پر درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور توانائی کے شعبے میں درپیش بنیادی چیلنجوں کو طویل مدتی پالیسیوں کے ساتھ پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ گیس کے مقامی وسائل کو استعمال کرنے سے توانائی کی قیمتوں کو ایک درمیانی مدت کے حل کے طور پر مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے متعلق قرضوں سمیت پاکستان کے عوامی قرضوں کی دوبارہ پروفائلنگ اور مذاکرات اور پالیسی سازی میں ماہرین کی شمولیت پر زور دیا۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ 0 سے 45 فیصد بجلی رہائشی ضروریات کے لئے  پیدا کیجاتی ہے انہوں نے غیر پیداواری کاموں کے لیے زیادہ کھپت کو اجاگر کرتے ہوئے اور بجلی کے موثر استعمال کے لیے صنعتوں کا حصہ بڑھانے پر زور دیا۔

 

SDPI

 

انہوں نے کہا کہ بجلی کی موجودہ قیمتوں میں اضافے کے جھٹکے کو متوازن کرنا ایک جامع حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جس میں بروقت میٹر ریڈنگ، BISP کے ذریعے ٹارگٹڈ سبسڈی دینا اور سبسڈیز کو ختم کرنا، ڈیمانڈ سائیڈ مینجمنٹ سمیت بلوں میں حکومتی چارجز کو آسان بنانا شامل ہے۔ انہوں نے صاف توانائی کی منتقلی اور جسٹ انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپس کو تیز کرنے، ٹرانسمیشن سسٹم کی خرابیوں کو دور کرنے، ذمہ دارانہ استعمال کے رویے کو فروغ دینے اور طویل مدتی حل کے طور پر مربوط پالیسی اپروچ پر زور دیا۔

 کے الیکٹرک  کی چیف مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن آفیسر سعدیہ نے کے الیکٹرک نے کہا کہ بجلی کی سبسڈی نے موجودہ بحران میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اس طرح توانائی کی قیمتوں میں توازن رکھنا بہت اہم ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایف بی آر کو چاہیے کہ ٹیکس نیٹ کا مقصد بجلی کے صارفین کی بجائے خوردہ فروشوں کی طرف ری ڈائریکٹ کرے تاکہ کم آمدنی والے صارفین پر بوجھ کم کیا جا سکے۔.

 ڈائریکٹر LUMS انرجی انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر فیاض نے کہا  کہ پاکستان کے پالیسی منظر نامے میں توانائی کی کارکردگی اور ڈیمانڈ سائیڈ مینجمنٹ کا فقدان  ہے جس سے قلیل مدتی ریلیف مل سکتا تھا۔ اسامہ رضوی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ توانائی کے عالمی مہنگائی کے بحران سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرے۔

 انہوں  نے ملک کی اسٹریٹجک توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے، توانائی کی درآمد کے متبادل اور ریفائنری کی صلاحیت کو بڑھانے کی تجویز دی۔ سینئر ریسرچ اکانومسٹ PIDE، عافیہ ملک نے ٹارگٹڈ سبسڈیز مختص کرکے، اور کراس سیکٹرل سبسڈیز کو مرحلہ وار ختم کرکے حکومتی چارجز میں شفافیت کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ متوازی طور پر، اس نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی تجویز  پیش کی۔

مصطفی امجد نے کہا کہ کہ حکومت توانائی کے منصوبوں کو بہتر بنا کر 8.6 بلین روپے بچا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ DESCOs اور CPPA کے درمیان تعاون کو مضبوط بنا کر سستی توانائی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ایس ڈی پی آئی  کےعبید الرحمان ضیاء نےکہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اس اضافے کی ایک وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام سے مشروط ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیرف اور سبسڈی کو ختم کرنا ضرورری ہے۔

ایس ڈی پی آئیتوانائی
Comments (0)
Add Comment