غزہ جنگ، امریکہ کے ساتھ بالواسطہ رابطے رہے، ایرانی وزیر خارجہ
ایرانی وزیر خارجہ نے حزب اللہ کے لیے امریکی دھمکیوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان دھمکیوں کی وجہ سے حزب اللہ اپنے جنگی فیصلوں کے بارے میں رکے یا احتیاط نہیں کرے گا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے اس موقع پر یہ بھی انکشاف کیا کہ غزہ کی جنگ کے پچھلے چالیس دنوں کے دوران امریکہ اور ایران کے درمیان دو طرفہ رابطے جاری رہے ہیں اور ایک دوسرے کے پیغام آتے جاتے رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس امر کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔جس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان یہ رابطے غزہ کے جنگ کے بارے میں اٹھنے والے سوالات اور مشرق وسطی سے متعلق ایرانی اور امریکی حکمت عملی کے ایشوز پر یہ رابطے سوئس سفارتخانے کے ذریعے ہوتے رہے۔
جسے امریکہ نے ایران میں اپنے مفادات کی نگرانی کے لیے ذمہ داری دے رکھی ہے۔غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوتے ہی امریکہ نے اپنی فوجی قوت اور جدید ترین اثاثوں کو خطے میں منتقل کر دیا تھا۔ جن کو اب واپس دنیا کے مختلف خطوں میں بھجوانا شروع کر چکا ہے۔ بطور خاص ان جنگی ہتھیاروں کو انڈو پیسیفک میں بھیجا جا رہا ہے۔
پینٹاگون نے اس سلسلے میں بار بار کہا کہ اس کے ہزاروں فوجی بحری بیڑوں اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ علاقے میں موجود ہیں تاکہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی کھلنے والے محاذ کو روک سکیں اور اسرائیلی دفاع کیا جا سکے۔ جبکہ ایرانی وزیر خارجہ کے بقول ایران نے امریکہ کو یہ بتادیا تھا کہ وہ مشرق وسطی میں جنگ کو بڑھاوا نہیں دینا چاہتا۔
حسین امیر نے اپنے انٹرویو میں کہاکہ ہم نے انہیں بتا دیا تھا کہ ایران جنگ کا پھیلاو نہیں چاہتا۔ لیکن اگر غزہ اور مغربی کنارے میں امریکی اور اسرائیل کی وجہ سے لوگوں کے خلاف جرائم جاری رہے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حتی کہ ایک بڑی جنگی صووتحال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔’