سینیٹ اجلاس: مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5سال،سپریم کورٹ و ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کے بل کثرات رائے سے منظور

سینیٹ اجلاس: مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5سال،سپریم کورٹ و ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کے بل کثرات رائے سے منظور

اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی و شور شرابہ، بل کی کاپیاں پھاڑ دیں، اجلاس کی صدارت عرفان صدیقی نے کی

اسلام آباد (نیوز پلس) سینیٹ نے بھی تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5سال،سپریم کورٹ ججز کی تعداد 17سے بڑھا کر 34کرنے،اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9سے بڑھا کر 12کرنے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے ترمیمی بل منظورکرلئے جبکہ اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

 پیرکو سینیٹ کا اجلاس پریزائیڈنگ افسر سینیٹر عرفان صدیقی کی زیر صدارت ایک گھنٹہ 30منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا بل پیش کیا، اس دوران اپوزیشن نے شور شرابا کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں تاہم رائے شماری کے بعد بل منظور کرلیا گیا۔

وزیر قانون نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم اور اسلام آباد ہائیکورٹ ترمیمی بل 2024ء ایوان میں پیش کئے جنہیں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

بعد ازاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں مزید ترمیم، پاکستان نیول ایکٹ 1961ء میں مزید ترمیم اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953ء میں ترمیم کے بل سینیٹ میں پیش کئے جنہیں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا،

نئی  قانون سازی سے سروسز چیف کی مدت ملازمت 3سے بڑھ کر 5سال ہوگئی ہے۔۔سینیٹر انوشے رحمن نے سرکاری ملکیتی اداروں سے متعلق گورننس اینڈ آپریشنز ترمیمی بل 2024ء پیش کیا،وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ یہ بل آج ہی پیش ہو رہا ہے، اسے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیں، جس پر پریذائیڈنگ افسر نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔سینیٹر سلیم مانڈی والا نے قومی ادارہ برائے صحت تنظیم نو ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ بل آج ہی پیش ہو رہا ہے جس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ یہ بل آج ہی پیش ہو رہا ہے اسے متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جاسکتا ہے، پریذائیڈنگ افسر نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

سینیٹر انوشہ رحمن نے متروکہ املاک انتظام ترمیمی بل 2024ء پیش کیا جسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کارخانہ جات ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا جس پر اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ متعلقہ وزیر موجود نہیں ہیں میں اس حالت میں نہیں کہ اس بل کو سپورٹ کرسکوں۔بعد ازاں سینیٹ نے کارخانہ جات ترمیمی بل منظور کر لیا۔

اجلاس میں فوجداری قوانین ترمیمی بل 2023موخر کر دیاگیا، وزیر قانون نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے ایک اچھا بل آئے گا، اس بل کے ساتھ اس میں سے چیزیں بھی شامل ہوں گی، پریزائیڈنگ آفیسر نے بل موخر کرنے استدعا منظور کر لی۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی جانب سے ایوان میں پیش کیا گیا بل گارجنز اور وارڈز ترمیمی بل 2024ء ایوان سے منظور کر لیا گیا۔پریذائیڈنگ افسر نے تارکین وطن کی سمگلنگ روک تھام ترمیمی بل 2024موخر کر دیا۔

سینیٹر کامران مرتضی کی جانب سے پاکستان اینیمل کونسل بل 2023ء ایوان میں پیش کیا گیا،وزیر فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر نے کہاکہ ہم بل کی سپورٹ کررہے ہیں  جس پر بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

سینیٹر فوزیہ ارشد نے عموی شقات ترمیمی بل 2024ء سے واپس لینے کی تحریک پیش کی جس کی منظوری لے لی گئی۔سینیٹر ثمینہ نے انٹی ریپ تحقیقات ومقدمہ ترمیمی بل 2023ء پیش کیا وزیر نے بل موخر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ  پرائیویٹ ہسپتال کو میڈیکل لیگل کا اختیار نہیں دے سکتے ہیں جس پر بل موخر کردیا گیا۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے حقوق گرفتار نظر بند افراد یق زیر حراست تحقیقات بل 2020ایوان میں پاس کرنے کے بجائے موخر کرنے کی درخواست کی جس کو موخر کردیا گیا۔

سینیٹر فوزیہ ارشد نے واپڈا یونیورسٹی اسلام آباد بل 2024ء ایوان میں پیش کیا جسے منظور کرلیا گیا۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے موٹر سائیکل حادثات کی تعداد میں اضافے پر قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں موٹر سائیکل حادثات میں متعدد معصوم جانوں کے ضیاع اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں بڑھتے ہوئے اضافے کا ادراک رکھتے ہوئے؟اس حقیقت کا احساس کرتے ہوئے کہ موٹر بائیکس میں سیفٹی فیچرز کی کمی اور غیر معیاری ہیلمیٹس ان مہلک حادثات کے اہم اسباب میں سے ہیں؟، یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ حکومت یہ یقینی بنائے کہ موٹر سائیکل اور سیمیٹس تیار کنندگان بین الاقوامی میعار کے مطابق اپنی  مصنوعات کو تمام حفاظتی فیچرز سے آراستہ کریں اور کوالٹی ایشورنس میکانزم کے نفاذ کے ذریعے اس نظام کو نافذ کریں، قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔

سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے ملک میں بچوں کی بڑی تعداد کی ولدیت جن کے شناختی کارڈ کے بغیر تصدیق نہیں سے متعلق قردار سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے کہ پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد کی ولدیت معلوم نہیں جس کی شناختی کارڈ کے بغیر تصدیق نہیں ہوسکتی، جبکہ نادرا کے موجودہ شناختی کارڈز میں یہ فیچر موجود نہیں۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ نادرا کوہدایات جاری کی جائیں کہ شناختی کارڈ میں مذکورہ فیچرز شامل کیے جائیں؟

         لہٰذا یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ حکومت اس ضمن میں نادرا کو ضروری ہدایات جاری کرے کہ ’مجہوالانسب‘بچوں کے شناختی کارڈ میں ایک مخصوص کالم شامل کیا جائے، سینیٹ نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔

سینیٹ آف پاکستان
Comments (0)
Add Comment