سپریم کورٹ آف پاکستان کا سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ آف پاکستان کا سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ محفوظ
مشاورت کے بعد ہم دیکھیں گے کہ مختصر فیصلہ جاری کریں یا تفصیلی فیصلہ جاری کریں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ پر الیکشن کمیشن کاحکم ماننا لازم نہیں، کیا 2018کے انتخابات صحیح تھے؟،دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد:   سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے حوالے سے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس فیصلہ محفوظ کر لیا۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور پاکستان تحریک انصاف خواتین ونگ کی صدرکنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کی جانب سے مدعا علیحان کے دلائل پر جواب الجواب دینے کے بعد عدالت نے کیس کافیصلہ محفوظ کیا جو بعد میں سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ مشاورت کے بعد ہم دیکھیں گے کہ مختصر فیصلہ جاری کریں یا تفصیلی فیصلہ جاری کریں۔ جبکہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جواب الجواب میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل ساری باتیں اپنے خلاف کررہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کاکیس پیش کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ پر الیکشن کمیشن کاحکم ماننا لازم نہیں، کیا 2018کے انتخابات صحیح تھے؟جبکہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے سوال کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے پی ٹی آئی نے کتنے امیدوار کھڑے کئے اورکتنوں کو پارٹی سے وابستہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ایک پارٹی کاکوئی رکن دوسری پارٹی میں شامل ہوتا ہے توکیا اُس پر آرٹیکل 63-Aنہیں لگتا۔ صاحبزاہ حامد رضا اپنی پارٹی کے چیئرمین تھے کیاانہوں نے اپنی پارٹی سے وابستہ ہونے کاسرٹیفیکیٹ دیا۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تمام امیدواروں کوآزاد قراردینے سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیس بہت اہم ہے، سنجیدہ سوالات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری پر اٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سامنے ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے؟جو کچھ (ن)لیگ کے ساتھ 2018میں ہورہا تھا وہ آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے۔

 انتخابات میں سنگیں خلاف ورزیاں ہوئیں، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ وہ صاف اورشفاف طریقہ سے انتخابات کرواتا تاہم وہ اس میں ناکام رہا۔ جبکہ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پرانے زمانے میں آئینی ادارے غیر جانبدارہوتے تھے اب توالیکشن کمیشن عام درخواست گزارکی طرح کیس جیتنے ہمارے سامنے آیا ہے۔

جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو تو بونس مل گیا ، 90یا95لوگ پارٹی کو بغیر الیکشن لڑے مل گئے، یہ حقائق ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج سید منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 13رکنی فل کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔

سنی اتحاد کونسل اوردیگر کی جانب سے دائر 10درخواستوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اوردیگر فریق بنایا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواشاہ فیصل اتمانخیل،الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد، سینیٹر حامد خان، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، رکن قومی اسمبلی علی محمد خان، فیصل جاوید خان اوردیگر پی ٹی آئی رہنما سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے مقررہ 15میں اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں ثاتب کروں گا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کی اور من مانے انداز میں اورامتیاز برتے ہوئے ذمہ داریاں کیں، الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کروایا، 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں کوئی سیٹ نہیں جیتی تھی لیکن تین مخصوص نشستیں ملیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ یعنی 2018 میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ کیا آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ اس معاملے کا جوڈیشل نوٹس لے؟ اگر نہیں تو ذکر کیوں کررہے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے کیس لیں تو لے لیتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ 2018 انتخابات پر انحصار نہیں کریگی۔

جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا تھا آپ کا کیس تھوڑا سا مختلف ہے ، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کیا باپ پہلے سے وجود نہیں رکھتی تھی اس نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا ہم الیکشن کمیشن کی تعریف پر عمل کرنے کے پابند ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی اگر نہ ہوتی تو کس کو جاتیں،یہ نہیںکہہ سکتے کہ سپریم کورٹ پر الیکشن کمیشن کا حکم ماننا لازم ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ کیا ہم وہ گرائونڈ دیکھیں جس کا پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ذکربھی نہیں۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی توایک نشست بھی نہیں تھی، آپ دوبارہ متضاد بات کررہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کاذکرکررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل نئے پوائنٹس اٹھا رہے ہیں جو دلائل دیئے ہی نہیں گئے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ آئین میں کہیںلکھا ہے کہ اضافی نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دی جائیں۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ کہیں نہیں لکھا۔

 چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج توآپ اپنے خلاف ساری باتیں کررہے ہیں، پی ٹی آئی کاکیس پیش کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا کوئی ایسا فارمولا ہے کہ اتنی سیٹوں پر ایک نشست ملے گی۔ چیف جسٹس کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کے دلائل مان لیں تو آپکاکوئی کیس نہیں، یاتوپی ٹی آئی یہ کیس پیش کرے، اگر ہم آپ کی بات مان کر پی ٹی آئی کو نشستیں دے دیتے ہیں تو سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ میں ہے اس کو نہ میں۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحادکونسل کو ملیں گی جو پارلیمنٹ میں موجود ہے۔فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی منافقت ظاہر ہے، جمیعت علمائے اسلام( ف) کو بھی اقلیتوں کی مخصوص نشست دی ہوئی، میں جمیعت علمائے اسلام( ف) کا اقلیتوں کے حوالے سے منشور دکھا دیتاہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیا سنی اتحاد کونسل میں صرف سنی شامل ہوسکتے ہیں؟وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل میں تمام مسلمان شامل ہوسکتے ہیں۔فیصل صدیقی نے دلائل دیئے کہ مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دیں، آئین کے ٹیکسٹ میں ایسا نہیں لکھا ہوا، 2024 میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں 30 مخصوص نشستیں دی گئیں، قومی اسمبلی میں خیبرپختونخوا سے ن لیگ کو 2 سیٹوں کے عوض 5 مخصوص نشستیں ملیں، کیا 18 جنرل سیٹیں جیتنے والی کو 30 مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں؟

 جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کے حق پر کوئی بات نہیں کررہا، عوام نے ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ووٹ دیا، انتخابات کو شفاف بنانا ضروری ہے، صورتحال کے مطابق ایک بڑی سیاسی جماعت کو ووٹ ملا جس کو انتخابی عمل سے نکال دیا گیا، یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے نہ کہ سیاسی جماعتوں کا، 2018 میں بھی انتخابات پر سنجیدہ سوالات اٹھے تھے، الیکشن کمیشن پر بھی سوالات اٹھے تھے، کیا خاموش رہیں؟ عوام کا حق پامال ہونے دیں؟ کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل کا وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب آپ آزاد نہیں ہیں تاہم نشستوں کی تقسیم کے وقت آپ آزادتھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ اگر ایک پارٹی کاکوئی رکنی دوسری پارٹی میں شامل ہوتا ہے توکیا اُس پر آرٹیکل 63-Aنہیں لگتا۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ کی پارٹی کوتوبونس مل گیا ، 90یا95لوگ پارٹی کو بغیر الیکشن لڑے مل گئے، یہ حقائق ہیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو کہنا چاہیئے کہ اِس بونس کافائدہ کوئی نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ہم کہیں کہ الیکشن کمیشن نے غلط کیا توپھر کیاآپ کا کوئی کیس ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ٹکٹ پر پی ٹی آئی نظریاتی لکھا ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ آپ اپنی پارٹی کے چیئرمین تھے کیااپنی پارٹی سے وابستہ ہونے کاسرٹیفیکیٹ دیا۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہناتھا کہ پی ٹی آئی کادیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ انتخابات میں سنگیں خلاف ورزیاں ہوئیں، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ وہ صاف اورشفاف طریقہ سے انتخابات کرواتا تاہم وہ اس میں ناکام رہا۔ اس کے بعد فیصل صدیقی نے اپنا جواب الجواب مکمل کرلیا۔ پاکستان تحریک انصاف اور کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم نے دلائل کاآغاز کیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کیا کوئی حکم ہے کہ آپ سب آزاد امیدوار ہیں، تمام امیدواروں کوآزاد قراردینے سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں کنیفیوز ہوں، آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں کنول شوزب اور پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کررہا ہوں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ قومی اسمبلی کے پی ٹی آئی نے کتنے امیدوار کھڑے کئے اورکتنوں کو پارٹی سے وابستہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا۔اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ ملک بھر میں 263امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ مسٹر سلمان اکرم راجہ !آپ کا اپنا ٹکٹ بھی نظریاتی کاہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ پرانے زمانے میں آئینی ادارے غیر جانبدارہوتے تھے اب توالیکشن کمیشن عام درخواست گزارکی طرح کیس جیتنے ہمارے سامنے آیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا پی ٹی آئی کے جیتے ہوئے جو لوگ سنی اتحادکونسل میں گئے وہ ٹھیک اوروہ آپ کونہیں چاہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فرض کریں اگر ہم اس نتیجہ پر پہنچیں کہ پی ٹی آئی کے لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہیں جانے چاہیں تووہ آپ کو نہیں چاہیں۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آئین کے مطابق فیصلہ ہوناچاہیئے۔ سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ تحریک انصاف سے منسلک امیدواروں کو آزاد قرار دیاگیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق ہمیں آزادامیدوار مانا جائیگا، الیکشن کمیشن نے اپنا ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، آرٹیکل 51 میں کہاں لکھا ہے کہ مخصوص نشستیں لینے کے لیے ایک سیٹ جیتنا ضروری ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیس بہت اہم ہے، سنجیدہ سوالات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری پر اٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سامنے ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے؟جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے کوئی کیس نہیں لڑا بلکہ سنی اتحاد کونسل نے لڑا۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آزا د امیدوار شامل ہونے کے بعد مخصوص نشستوں کے حقدار ہیں اس کے باوجود کہ انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کے لئے امیدواروں کی فہرست جمع نہیں کروائی تھی۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی بن گئی جسے الیکشن کمیشن نے بھی تسلیم کیا۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کسی پارٹی کے بغیر ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ راجہ صاحب! آپ سے بھی سچ نہیں بولا جارہا، جو کچھ (ن)لیگ کے ساتھ 2018میں ہورہا تھا وہ آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے۔

 تمام فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، مشاورت کریں گے کہ مختصر فیصلہ سنائیں یا تفصیلی۔

سپریم کورٹ آف پاکستانسنی اتحاد کونسل
Comments (0)
Add Comment