ساری دنیا میں پراپیگنڈا ہوگا نظرثانی نہیں لگتی،التواکی درخواست تاخیری حربہ ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

 ساری دنیا میں پراپیگنڈا ہوگا نظرثانی نہیں لگتی،التواکی درخواست تاخیری حربہ ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

عدالت نہ آئیں یہ غیر مناسب بات ہے، اب وہ صحافتی اصول بھی نہیں رہے، سچی بات نہیں لکھیں گے ،ایک شخص عدالت میں بیٹھا ہے جو ڈھول بجا، بجا کرکہہ رہا تھا کہ یہ بلے کے نشان کاکیس ہے، یہ انٹراپارٹی الیکشن کاکیس ہے، نظرثانی درخواست کی سماعت میں ریمارکس

اسلام آباد:   سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے انٹراپاررٹی انتخابات کے معاملہ پر نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران نہ وکیل، نہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ، نہ درخواست گزار اور نہ ہی کوئی پی ٹی آئی رہنما پیش ہوا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریمارکس دیئے ہیں کہ ساری دنیا میں پراپیگنڈا ہوگانظرثانی نہیں لگتی، باہر جاکرپرا پیگنڈا کریں عدالت نہ آئیں یہ غیر مناسب بات ہے، اب وہ صحافتی اصول بھی نہیں رہے، سچی بات نہیں لکھیں گے۔ ہم جواب نہیں دے سکتے پہلے سینئر وکیل عدالتوں کادفاع کرتے تھے۔ 8فروری کوعام انتخابات تھے 13جنوری کوہم نے مختصرفیصلہ جاری کیااور25جنوری کوجلدی کرکے ہم نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا ، فوراً انٹراپارٹی انتخابات کروادیتے۔ایک شخص عدالت میں بیٹھا ہے جو ڈھول بجا، بجا کرکہہ رہا تھا کہ یہ بلے کے نشان کاکیس ہے، یہ انٹراپارٹی الیکشن کاکیس ہے۔ یہ انٹراپارٹی انتخابات کاکیس ہے نہ کہ اتخابی نشان واپس لینے کا۔ فیصلہ پڑھیں شاید ڈھول بجانے والے فیصلہ پڑھ کرتبصرہ کریں۔

نظرثانی میں وکیل تبدیل کرسکتے ہیں یہ درخواست گزارکاحق ہے، التواکی درخواست تاخیری حربہ ہے، ہم میڈیا کی ہیڈلائنز کی اجازت نہیں دیں گے، ہم انصاف کے مفاد میں کیس کی سماعت ملتوی کریں گے التواکی درخواست نہیں مانتے۔

 نظرثانی دائر کرنے والے درخواست گزار اور وکیل پر واضح کرنا چاہتے ہیں ہم آئندہ ہفتے اسلام آباد میں بینچ کی عدم دستیابی پر کیس کی سماعت 21اکتوبر سوموار کے روز تک ملتوی کررہے ہیں، کوئی مزید التوانہیں دیا جائے گا۔

جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کوعدالت میں ہونا چاہیے تھا۔ پی ٹی آئی کے دوبارہ انٹراپارٹی انتخابات کامعاملہ ہمارے سامنے نہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم درخواست سننے کے لئے بیٹھے ہیں کوئی پیش نہیں ہوایہ کوئی طریقہ نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہراورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3رکنی خصوصی بینچ نے جمعہ کے روز پاکستان تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 13جنوری 2024کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پرسماعت کی۔

 پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سینیٹر حامد خان کی جانب سے لاہور میں خاندان میں مصروفیت کے باعث التواکی درخواست دائر کی گئی تھی جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا۔ مدعا علیہ اکبر شیر بابر اپنے وکیل احمد حسن شاہ کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

 سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا حامد خان لاہور سے پیش ہورہے ہیں۔ اس پر کورٹ ایسوسی ایٹ حناامتیاز کی جانب سے بتایا گیا کہ کوئی وکیل پیش نہیں ہو ا ، التواکی درخواست دائر کی گئی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یکتا قسم کی التواکی درخواست دائر کی گئی ہے اس پڑھیں۔ اس پر اکبرایس بابر کے وکیل احمد حسن شاہ نے درخواست پڑھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انٹراپارٹی انتخابات ہوگئے ہیں کہ نہیں۔ احمد حسن شاہ کاکہناتھا کہ 3مارچ کو ہوگئے تھے اوروہ چیلنج ہوئے ہیں۔

 چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ویڈیو کانفرنس سے بھی وکلاء کوسنتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ابتدائی طور پر س بیرسٹر سید علی ظفر نے دلائل دیئے تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیس میں 7وکلاء تھے ان میں سے کوئی بھی دستیاب نہیں۔

 جسٹس محمد علی مظہر کااحمد حسن شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابھی درخواست پر نوٹس تونہیں ہوا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ 13جنوری کومختصر اور25جنوری کوتفصیلی فیصلہ جاری ہواتھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 8فروری کوعام انتخابات ہوئے اور 6فروری کو نظرثانی درخواست دائر کی گئی اس کامطب ہے کہ پی ٹی آئی اس حکم سے متاثر نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ انٹراپارٹی انتخابات مارچ میں ہوئے توہ بھی چیلنج ہو گئے ، یہ درخواست دائر کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ ہم نے 13جنوری کومختصر حکم جاری کیا تھااگلے روز انٹراپارٹی انتخابات کروادیتے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ انٹراپارٹی انتخابات کاکیس ہے نہ کہ اتخابی نشان واپس لینے کا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ایک شخص عدالت میں بیٹھا ہے جو ڈھول بجا، بجا کرکہہ رہا تھا کہ یہ بلے کے نشان کاکیس ہے، یہ انٹراپارٹی الیکشن کاکیس ہے۔

 چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیصلہ پڑھیں شاید ڈھول بجانے والے فیصلہ پڑھ کرتبصرہ کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ8فروری کوعام انتخابات تھے 13جنوری کوہم نے مختصرفیصلہ جاری کیااور25جنوری کوجلدی کرکے ہم نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا ، فوراً انٹراپارٹی انتخابات کروادیتے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی کے 8لاکھ 50ہزارارکان ہیں انتخابات کروادیتے جو مرضی جیتے، ہم اصول کی بات کرتے ہیں اور انٹراپارٹی انتخابات کی اہمیت بتاتے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیصلے میں قانونی غلطی بتادیں ہم ٹھیک کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 29مئی کی مجوزہ کازلسٹ میں کیس آیا تھا تاہم 4جون 2024تک سید علی ظفر چھٹیوں پر تھے اور ہماری معزز ساتھی جج کادل کاآپریشن ہوناتھا۔

 چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ باہر جاکرپراپیگنڈا کریں عدالت نہ آئیں یہ غیر منساسب بات ہے، اب وہ صحافتی اصول بھی نہیں رہے، سچی بات نہیں لکھیں گے۔

 چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خاندان میں مصروفیت ہے، کوئی حادثہ ہوجاتا ہے کوئی اوربات ہوتی ہے، کیس میں سات وکیل ہیں کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ساری دنیا میں پراپیگنڈا ہوگانظرثانی نہیں لگتی، آج ہم نے دوم تین التواکی درخواستیں خارج کی ہیں، ایک درخواست گزارنے کہا کہ میںنے ڈاکٹر سے چیک اپ کروانا ہے اس لئے التوادیں۔ احمد حسن شاہ کاکہنا تھا کہ اگر ججز دستیاب ہوں تو کل (ہفتہ)کے روز کیس سنا جاسکتا ہے۔

 چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم جواب نہیں دے سکتے پہلے سینئر وکیل عدالتوں کادفاع کرتے تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئندہ کون ساورکنگ ڈے ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 21اکتوبر کوسماعت رکھ لیتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھاکہ ہم درخواست سننے کے لئے بیٹھے ہیں کوئی پیش نہیں ہوایہ کوئی طریقہ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کیا کرنا چاہیے ۔ اس پر وکیل احمد حسن شاہ کاکہناتھا کہ درخواست پر فیصلہ آنا چاہیے ۔

 چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نظرثانی میں وکیل تبدیل کرسکتے ہیں یہ درخواست گزارکاحق ہے، التواکی درخواست تاخیری حربہ ہے، ہم میڈیا کی ہیڈلائنز کی اجازت نہیں دیں گے، ہم انصاف کے مفاد میں کیس کی سماعت ملتوی کریں گے التواکی درخواست نہیں مانتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزادکدھر ہیں، کتنی اچھی ذمہ داریاں ادا کرہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کوعدالت میں ہونا چاہیے تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے دوبارہ انٹراپارٹی انتخابات کامعاملہ ہمارے سامنے نہیں۔

چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزادنے التواکی درخواست دی جس میں بتایا گیا کہ سینئر وکیل حامد خان ضروری خاندانی مصروفیت کی وجہ سے لاہور میں ہیں، بتایابھی نہیں گیا کہ کیامصروفیت ہے۔درخواست میں 13جنوری کے فیصلے پر نظرثانی مانگی گئی ہے۔ 25جنوری 2024کوتفصیلی فیصلہ جاری ہوا، حامد خان، سید علی ظفر ، بیرسٹرگوہر علی خان، اجمل غفارطور، نیازاللہ خان نیازی سب سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، حامد خان کااگرکوئی خاندانی مسئلہ تھا توکوئی بھی دیگر وکیل کیس چلاسکتاتھا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ 2023کے سیکشن 6کے تحت درخواست گزارکیس میں وکیل تبدیل کرسکتا ہے جوکہ نہیںکیا گیا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم التواکی درخواست قبول نہیں کرتے تاہم انصاف کے اصولوں کے مطابق کیس کی سماعت کررہے ہیں، نظرثانی دائر کرنے والے درخواست گزار اور وکیل پر واضح کرنا چاہتے ہیں ہم آئندہ ہفتے اسلام آباد میں بینچ کی عدم دستیابی پر کیس کی سماعت 21اکتوبر سوموار کے روز تک ملتوی کررہے ہیں، کوئی مزید التوانہیں دیا جائے گا۔

 اس دوران چیف جسٹس کاوکیل احمد حسن شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ کے مئوکل اب بھی پاکستان تحریک انصاف میں ہی ہیں۔ اس پر احمد حسن شاہ کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں ہی ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پارٹی سے نکالا نہیں۔ اس پر احمد حسن شاہ کاکہنا تھانہیں نکالا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ اچھی بات ہے کہ لوگ ایک ہی پارٹی میں رہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ عدالتی حکم کی کاپی درخواست گزار ، وکیل اور اڈووکیٹ آن ریکارڈکوبھجوائی جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نیازاللہ نیازی اور بیرسٹر گوہر علی خان نے نظرثانی درخواست دائر کی ہے۔ کیس کی سماعت کل 25منٹ جاری رہی، کیس کی سماعت 11بجکر35منٹ پر شروع ہوئی اور 12بجے ختم ہوئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
Comments (0)
Add Comment